قربتوں کے یہ سلسلے بھی ہیں

قربتوں کے یہ سلسلے بھی ہیں

چشم در چشم رت جگے بھی ہیں

جانے والے دنوں کے بارے میں

آنے والوں سے پوچھتے بھی ہیں

بات کرنے سے پہلے اچھی طرح

ہم بہت دیر سوچتے بھی ہیں

تری خوش حالیوں کی قامت کو

تیرے ماضی سے ناپتے بھی ہیں

ڈوبتے چاند کو دریچے میں

چشم پر نم سے دیکھتے بھی ہیں

مسکرانے کے ساتھ یاد رہے

قوس کے رنگ ٹوٹتے بھی ہیں

شام ہوتے ہی بستیوں سے دور

سائے سایوں سے بولتے بھی ہیں

تیری پہچان کر گئی رسوا

لاکھ بچ بچ کے ہم چلے بھی ہیں

قربتوں کی مہک مہک ہے وہی

درمیاں یوں تو فاصلے بھی ہیں

اپنا چہرہ گواہی دیتا ہے

روپ کی دھوپ میں جلے بھی ہیں

چاند کے ساتھ ساتھ راتوں کو

اس کے گھر تک ضیاؔ گئے بھی ہیں

(1014) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Qurbaton Ke Ye Silsile Bhi Hain In Urdu By Famous Poet Ziya Shabnami. Qurbaton Ke Ye Silsile Bhi Hain is written by Ziya Shabnami. Enjoy reading Qurbaton Ke Ye Silsile Bhi Hain Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Ziya Shabnami. Free Dowlonad Qurbaton Ke Ye Silsile Bhi Hain by Ziya Shabnami in PDF.