جیسے کشتی اور اس پر بادباں پھیلے ہوئے

جیسے کشتی اور اس پر بادباں پھیلے ہوئے

میرے سر پر اس طرح ہیں آسماں پھیلے ہوئے

چل رہے ہیں دھوپ سے تپتی ہوئی سڑکوں پہ لوگ

اور سائے سائباں در سائباں پھیلے ہوئے

دیکھیے کب تک رہے تنہا پرندے کی اڑان

ہیں سمندر ہی سمندر بے کراں پھیلے ہوئے

جاگتی آنکھوں کے خواب اور تیرے بالوں کے گلاب

میرے بستر پر ہیں اب بھی میری جاں پھیلے ہوئے

سانحہ یہ ہے کہ اب تک واقعہ کوئی نہیں

تذکرے ہیں داستاں در داستاں پھیلے ہوئے

میں تو ساری عمر اس کی سمت ہی چلتا رہا

فاصلے ہیں پھر بھی زلفیؔ درمیاں پھیلے ہوئے

(583) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Tasleem Ilahi Zulfi. is written by Tasleem Ilahi Zulfi. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Tasleem Ilahi Zulfi. Free Dowlonad  by Tasleem Ilahi Zulfi in PDF.