Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_3fb0cb7fce25479ec1028357b77dd9f5, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
ہوا رکی ہے تو رقص شرر بھی ختم ہوا - طارق قمر کی شاعری - Darsaal

ہوا رکی ہے تو رقص شرر بھی ختم ہوا

قلم اداس ہے لفظوں میں حشر برپا ہے

ہوا رکی ہے تو رقص شرر بھی ختم ہوا

جنون شوق جنون سفر بھی ختم ہوا

فرات جاں

تری موجوں میں اب روانی نہیں

کوئی فسانہ نہیں اب کوئی کہانی نہیں

سمٹ گئے ہیں کنارے وہ بیکرانی نہیں

تو کیا یہ نبض کا چلنا ہی زندگانی ہے

نہیں نہیں یہ کوئی زیست کی نشانی نہیں

کہ سانس لینا فقط کوئی زندگانی نہیں

کچھ اور رنگ میں آئی ہے یہ خزاں اب کے

ہے سمٹی سمٹی سی خود میں ہی غیرت ناہید

میان اہل طریقت بھی بے ردا ہے غزل

ہجوم اہل زباں اور بے نوا ہے غزل

سفر یہ کیسے کرے خار زار رستوں پر

تھکن سوار ہے اس پر برہنہ پا ہے غزل

تمہارا ساتھ جو چھوٹا تو اب پریشاں ہے

کہ اس تغافل بے جا پہ سخت حیراں ہے

یہ کس مقام پہ تم نے اکیلا چھوڑ دیا

تمہیں خبر ہے کہ تم سے بہت خفا ہے غزل

یہ بے مکانی

یہ تنہائی اور یہ در بہ دری

ستا رہا ہے بہت اب خیال ہمسفری

صلیب و دار و رسن سے گزر رہی ہے غزل

چلے بھی آؤ کہاں ہو کہ مر رہی ہے غزل

سیہ لباس میں نوحے اداس بیٹھے ہیں

سروں کو تھامے قصیدے اداس بیٹھے ہیں

ہے مرثیے کی نگاہوں میں ابر ٹھہرا ہوا

بدن دریدہ لطیفے اداس بیٹھے ہیں

ابھر رہی ہے یہ کیسی صدائے واویلا

سرہانے دیکھو رباعی کا بین ہوتا ہے

وہ دیکھو

نظم گریبان چاک کرتے ہوئے

دہائی دیتی ہے مقتل کے استعاروں کی

علامتوں کی کنایوں کی اور اشاروں کی

بہت ملول ہیں شہر سخن کی تحریریں

شب الم کے ہیں قصے جنوں کی تفسیریں

ورق ورق ہے پریشاں غبار خاطر کا

ہوا ہے نثر کو احساس پھر یتیمی کا

ہوائے شہر ستم کس ادا سے گزری ہے

دہن خموش ہیں

چپ چپ سے ہیں سخن کے چراغ

بجھی بجھی سی ہے قندیل خانقاہ ادب

دھواں دھواں ہیں

خطابت کے فکر و فن کے چراغ

ہے آسمان ادب پہ وہ دھند چھائی ہوئی

دکھائی دیتا نہیں اب کوئی ستارۂ نور

کلام کا وہ قرینہ

وہ گفتگو کا شعور

کہاں سے اب کوئی لائے گا ثانیٔ منظور

عجیب وقت پڑا ہے فن نظامت پر

کہ دم بخود سے کھڑے ہیں اب انورؔ و منظورؔ

وقار کیسے عطا ہو شکستہ لہجوں کو

رفو کرے کوئی کیسے دریدہ جملوں کو

ہے مسکرانا ضروری وقار غم کے لئے

تراشے کون زباں حرمت قلم کے لئے

تمہارے جانے سے ویران ہو گئی محفل

اجڑ گیا ہے یہ دیکھو جہان شہر ادب

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ اب کہاں جائیں

بھٹکتے پھرتے ہیں اب ساکنان شہر ادب

یہ میکدے کی اداسی

یہ جام الٹے ہوئے

کہ جیسے روئے ہوں شب بھر یہ ساغر و مینا

کئی دنوں سے ہنسی ہی نہیں ہے کالج گرل

تمہارے ہجر نے پتھر بنا دیا ہے اسے

بہت اداس بڑی بے قرار چپ چپ سی

کہ حزن و یاس کا منظر بنا دیا ہے اسے

وہ دیکھو میز پہ جتنی کتابیں رکھی ہیں

تمہاری گرد رفاقت ہے سب کے چہرے پر

پکارتی ہیں تمہیں یہ ادھوری تحریریں

بکھرتے ٹوٹتے خوابوں کی تشنہ تعبیریں

یہ اجڑا اجڑا دبستان ڈھونڈھتا ہے تمہیں

چلے بھی آؤ کہ امکان ڈھونڈھتا ہے تمہیں

جو ہو سکے تو چلے آؤ تم ملک زادہ

مگر یہ خواہش بے جا

اسے خبر ہی نہیں

کہ جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے

مہکتے رہتے ہیں گلدان ان کی یادوں کے

سلگتے رہتے ہیں لوبان ان کی یادوں کے

(927) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Tariq Qamar. is written by Tariq Qamar. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Tariq Qamar. Free Dowlonad  by Tariq Qamar in PDF.