Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_9e2585bcf2b3ff251261b7ed29ab6027, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
خموشی بس خموشی تھی اجازت اب ہوئی ہے - شارق کیفی کی شاعری - Darsaal

خموشی بس خموشی تھی اجازت اب ہوئی ہے

خموشی بس خموشی تھی اجازت اب ہوئی ہے

اشاروں کو ترے پڑھنے کی جرأت اب ہوئی ہے

عجب لہجے میں کرتے تھے در و دیوار باتیں

مرے گھر کو بھی شاید میری عادت اب ہوئی ہے

گماں ہوں یا حقیقت سوچنے کا وقت کب تک

یہ ہو کر بھی نہ ہونے کی مصیبت اب ہوئی ہے

اچانک ہڑبڑا کر نیند سے میں جاگ اٹھا ہوں

پرانا واقعہ ہے جس پہ حیرت اب ہوئی ہے

یہی کمرہ تھا جس میں چین سے ہم جی رہے تھے

یہ تنہائی تو اتنی بے مروت اب ہوئی ہے

بچھڑنا ہے ہمیں اک دن یہ دونوں جانتے تھے

فقط ہم کو جدا ہونے کی فرصت اب ہوئی ہے

عجب تھا مسئلہ اپنا عجب شرمندگی تھی

خفا جس رات پر تھے وہ شرارت اب ہوئی ہے

محبت کو تری کب سے لیے بیٹھے تھے دل میں

مگر اس بات کو کہنے کی ہمت اب ہوئی ہے

(714) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shariq Kaifi. is written by Shariq Kaifi. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shariq Kaifi. Free Dowlonad  by Shariq Kaifi in PDF.