فضائے نم میں صداؤں کا شور ہو جائے

فضائے نم میں صداؤں کا شور ہو جائے

وہ مسکرا دے ذرا سا تو بھور ہو جائے

کبھی جو اتروں میں رقص سخن کے صحرا میں

تو اپنا حال بھی مانند مور ہو جائے

وہ مے کدے سے بھی نکلے تو پاکباز رہے

میں اس کی آنکھوں سے پی لوں تو شور ہو جائے

نظر میں پھول ہو کاغذ پہ ایک صحرا ہو

تو یوں غزل کا کوئی اور چھور ہو جائے

جو فعل اصل کو میں نظم کرنے بیٹھوں تو

بدن سے لہر اٹھے پور پور ہو جائے

ہر ایک رات وہی ڈش ہو ذائقہ بھی وہی

تو پھر مزاج طرح دار بور ہو جائے

یہ شامیانہ سخن کا قرار جاں ٹھہرا

یہاں قیام کرے جو پٹور ہو جائے

مراقبہ میں کوئی آگے چھم سے اترائے

تو پھر فقیر کے دل میں بھی چور ہو جائے

مگر یہ دل کہ کسی اور کا نہیں رکھتا

دماغ کہتا ہے تو میری اور ہو جائے

وہ اک بدن کہ جو سر چشمۂ تصور ہو

تو پا برہنہ سفر میں بھی زور ہو جائے

جو سن لے قاسمیؔ تیری غزل تو پتھر بھی

مجال ہے کہ وہ اتنا کٹھور ہو جائے

(500) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shamim Qasmi. is written by Shamim Qasmi. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shamim Qasmi. Free Dowlonad  by Shamim Qasmi in PDF.