خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے

خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے

یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے

ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں

میں رستہ بھول جاؤں جنگلوں میں شام ہو جائے

میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں

خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ہو جائے

مثال ایسی ہے اس دور خرد کے ہوش مندوں کی

نہ ہو دامن میں ذرہ اور صحرا نام ہو جائے

شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے

ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

(444) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shakeb Jalali. is written by Shakeb Jalali. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shakeb Jalali. Free Dowlonad  by Shakeb Jalali in PDF.