Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_8f86cd3784ccb22f9e1e497791362597, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لئے - شہزاد انجم برہانی کی شاعری - Darsaal

سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لئے

سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لئے

سورجوں کی وراثت ملی تھی ہمیں در بدر ہو گئے روشنی کے لیے

کوئی آواز ہے وہ کوئی ساز ہے اس سے ہی رنگ و نکہت کا در باز ہے

جس طرف ہو نظر وہ رہے جلوہ گر کیسے سوچیں گے ہم پھر کسی کے لیے

بد دماغی مری ہے وہی جو کہ تھی طرز خود بیں تمہارا وہ ہے جو کہ تھا

چل رہے ہیں انا کے سہارے مگر راستہ ہی نہیں واپسی کے لیے

ہو سلامت مرا عشق جوش جنوں حسن کے راز خود منکشف ہو گئے

اتنی مشکل نہیں رہ گزار فنا بے خودی چاہئے آگاہی کے لیے

اس زمانے سے کوئی توقع نہ رکھ کس میں ہمت ہے خنجر پہ رکھ دے زباں

عدل گاہوں میں انصاف بکنے لگا سچ بھی کہنا ہے جرم آدمی کے لیے

تم سے اک گھونٹ کی پیاس کیا بجھ سکی جب کہ وابستگی تو سمندر سے تھی

ہم نے دریاؤں تک کا سفر طے کیا اپنے بے معنی سی تشنگی کے لیے

آدمی کی ہوس کا ٹھکانا نہیں لیکن انجمؔ خدا سے یہی مانگنا

اک وفادار بیوی ہو بچے ہوں گھر اور کیا چاہئے زندگی کے لیے

(603) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shahzad Anjum Burhani. is written by Shahzad Anjum Burhani. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shahzad Anjum Burhani. Free Dowlonad  by Shahzad Anjum Burhani in PDF.