Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_15a6743d84cdae34c1b3dd9b83333ff2, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے - شہزاد احمد کی شاعری - Darsaal

اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے

اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے

آپ جیسے بھی ہیں نیت آپ کی جیسی بھی ہے

کھل چکی ہیں اس کے گھر کی کھڑکیاں میرے لیے

رخ مری جانب رہے گا بے رخی جیسی بھی ہے

چوٹیاں چھو کر گزرتے ہیں برستے کیوں نہیں

بادلوں کی ایک صورت آدمی جیسی بھی ہے

اجنبی شہروں میں تجھ کو ڈھونڈھتا ہوں جس طرح

اک گلی ہر شہر میں تیری گلی جیسی بھی ہے

آج کے دکھ ہی بہت ہیں بیم فردا کس لیے

کٹ ہی جائے گی اذیت کی گھڑی جیسی بھی ہے

دھندلا دھندلا ہی سہی رستہ دکھائی تو دیا

آج کا دن ہے غنیمت روشنی جیسی بھی ہے

جھولتی ہے میرے دل میں ایک شاخ اس پیڑ کی

وہ تر و تازہ ہے یا سوکھی ہوئی جیسی بھی ہے

میں نے دیکھا ہے فلک کو جاگتے سوتے ہوئے

میری آنکھوں تک تو آئی چاندنی جیسی بھی ہے

اب کہاں لے جائیں سانسوں کی سلگتی آگ کو

زندگی ہے زندگی اچھی بری جیسی بھی ہے

کوئی موسم ہو مری خوشبو رہے اس پھول میں

داستاں میری کہی یا ان کہی جیسی بھی ہے

اپنا حق شہزادؔ ہم چھینیں گے مانگیں گے نہیں

رحم کی طالب نہیں بے چارگی جیسی بھی ہے

(563) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shahzad Ahmad. is written by Shahzad Ahmad. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shahzad Ahmad. Free Dowlonad  by Shahzad Ahmad in PDF.