قدم سنبھل کے بڑھاؤ کہ روشنی کم ہے

قدم سنبھل کے بڑھاؤ کہ روشنی کم ہے

اگر یہ بھول نہ جاؤ کہ روشنی کم ہے

گھروں کو آگ لگاؤ کہ روشنی کم ہے

یہیں سے بات بناؤ کہ روشنی کم ہے

جواب یہ کہ کوئی رہنمائے قوم ہیں آپ

اگر کسی کو بتاؤ کہ روشنی کم ہے

سحر کو شام سمجھنا جو بس کی بات نہیں

یہی سوال اٹھاؤ کہ روشنی کم ہے

شریک بزم سیاست ہیں کچھ برے چہرے

ذرا قریب تو آؤ کہ روشنی کم ہے

صدا لگاؤ کہ آنکھیں عجیب نعمت ہیں

انہیں یقین دلاؤ کہ روشنی کم ہے

کہیں جھپٹ نہ پڑیں دن میں مشعلیں لے کر

عوام کو نہ سجھاؤ کہ روشنی کم ہے

روا نہیں کہ کسی ڈوبتے ستارے کو

چراغ راہ بناؤ کہ روشنی کم ہے

سواد شام کے خاموش جگنوؤں سے کہو

تمہیں چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے

ذرا پہنچ کے تو دیکھو سواد منزل تک

تم اس خبر پہ نہ جاؤ کہ روشنی کم ہے

ہزار سال تو رہتا نہیں عبوری دور

فساد خوب اگاؤ کہ روشنی کم ہے

یہ شاعران غلط بیں کہیں گے اک دن شادؔ

ہمیں چراغ دکھاؤ کہ روشنی کم ہے

(505) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Shaad Aarfi. is written by Shaad Aarfi. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Shaad Aarfi. Free Dowlonad  by Shaad Aarfi in PDF.