Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_fae451863117b398387def71f60984ae, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
شاید مٹی مجھے پھر پکارے - سارا شگفتہ کی شاعری - Darsaal

شاید مٹی مجھے پھر پکارے

سن

دریا اپنی مٹھی کھول رہا ہے

سن

کچھ پتے اور پتوں کے ساتھ کچھ ہوا اکھڑ گئی ہے

جنگل کے پیڑ ارادے

زمین کو بوسہ دے رہے ہیں

چاہتے ہیں دریا کو مٹھی کا جال لگائیں

آنکھیں منظر تہہ کرتی جا رہی ہیں

سمندر مٹی کو چوکور کر نہیں پا رہے سن

گلی لے پہ پھنکار رہی ہے

اس میں جلے ہوئے کپڑے پھینک

زینے گلیوں میں دھنسے جا رہے ہیں

جسموں سے آنکھیں باندھ دی گئی ہیں

بہتے ستارے تجھے عکس کر رہے ہیں

تیرے پاس کوئی چہرہ نہیں

بتا

جنگل سے لوٹنے والوں کے پاس

میرے لفظ تھے یا مورت

کئی جنم بعد بات دہرائی ہے

میری بات میں جال مت لگا میری بات بتا

بتا

بوجھل سائے پہ کتنا وزن رکھا گیا تھا

سن

موت کی چادر تمہاری آنکھیں ناپنا چاہتی ہے

کنچے اس چادر کو چھید چھید کر دیں گے

چادر میں پہلے ہی سی کر لائی تھی

کیا پیمانہ زنگ آلود تھا

یہ چادر تمہیں مٹی سے دور رکھے گی

ایسی حد ایسی حد سے میرا وجود انکار کرتا ہے

تمہارا وجود تو پرندے رٹ چکے

تمہاری زبان کہیں تمہاری محتاج تو نہیں

میرے اعضا پر اعتبار کر

میں حیرتوں کا انکار ہوں

مختلف رنگ کے چراغ

اور پانیوں کی زبانیں

آدمی انسان ہونے چلا تھا کہ کنواں سوکھ گیا

کیا آدمی نے کنوئیں میں نفرت پھینک دی تھی

نہیں

وہ صدا گنبد کو توڑتی ہوئی

تھوڑا سا آسمان بھی توڑ لائی تھی

چادر اور آواز کو تہہ کر کے رکھ دو

لوٹنے تک میری آواز دھرتی پہ گونجتی رہے

جیسے جیسے تم جاؤ گے

ختم ہوتے جاؤ گے

تم دو آنکھیں رکھنا مگر فاصلے کو بیدار مت کرنا

آنکھوں کی ٹک ٹک سارا جنگل جانتا ہے

تم خاموش رہنا

اور ہاں زبان کا علم اپنے ساتھ لیتے جاؤ

تم پیڑوں اور چڑیوں کی گفتگو سننا

آبشاروں کے وار سہنا

میں یہ ٹکڑا آسمان کو رنگنے جا رہی ہوں

رخصت ہو رہی ہو

آنے کا وعدہ ہے

وعدے چوکھٹ گھڑیاں جوڑ جوڑ کر بنائے گئے ہیں

وعدے کو کھڑاؤں مت پہناؤ

چاپ کا اقرار دیکھ میرے قدم کی رکھوالی کرتی ہے

میں اپنے چراغ کی لو سے

تمہاری جھونپڑی باندھے جاتی ہوں

لو اور یہ جھونپڑی

جس وقت اپنا اپنا دم توڑ دیں

تو سمجھ لینا

میں کوئی زندہ نہیں رہی ہوں گی

دیا تاریکیوں کو چوکنا رکھے گا

سانس تپ چکے

اور مٹی مجھے بلا رہی ہے

اچھا چراغ اور چادر کو باندھ دو

حیرت ہے

تم حقیقت کی تیسری شکل نہیں دیکھنا چاہتے

آگ کو کوزے میں بند کر دو

اور

یہ رہا چراغ اور چادر

یہ تو راکھ ہے

یہ راکھ نہیں میرے سفر کی گواہی ہے

(981) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Sara Shagufta. is written by Sara Shagufta. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Sara Shagufta. Free Dowlonad  by Sara Shagufta in PDF.