Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_6f7782b5133fca563e5c0df0f0515549, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا - ساقی فاروقی کی شاعری - Darsaal

پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا

پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا

یہ وہی جسم کا آہن ہے کہ مٹی نکلا

میرے ہمراہ وہی تہمت آزادی ہے

میرا ہر عہد وہی عہد اسیری نکلا

ایک چہرہ تھا کہ اب یاد نہیں آتا ہے

ایک لمحہ تھا وہی جان کا بیری نکلا

ایک مات ایسی ہے جو ساتھ چلی آتی ہے

ورنہ ہر چال سے جیتے ہوئے بازی نکلا

موج کی طرح بہا درد کے دریاؤں میں

اس طرح زندہ بچا کون مگر جی نکلا

میں عجب دیکھنے والا ہوں کہ اندھا کہلاؤں

وہ عجب خاک کا پتلا تھا کہ نوری نکلا

جان پیاری تھی مگر جان سے بے زاری تھی

جان کا کام فقط جان فروشی نکلا

خاک میں اس کی جدائی میں پریشان پھروں

جب کہ یہ ملنا بچھڑنا مری مرضی نکلا

صرف رونا ہے کہ جینا پڑا ہلکا بن کے

وہ تو احساس کی میزان پہ بھاری نکلا

اک نئے نام سے پھر اپنے ستارے الجھے

یہ نیا کھیل نئے خواب کا بانی نکلا

وہ مری روح کی الجھن کا سبب جانتا ہے

جسم کی پیاس بجھانے پہ بھی راضی نکلا

میری بجھتی ہوئی آنکھوں سے کرن چنتا ہے

میری آنکھوں کا کھنڈر شہر معانی نکلا

میری عیار نگاہوں سے وفا مانگتا ہے

وہ بھی محتاج ملا وہ بھی سوالی نکلا

میں اسے ڈھونڈ رہا تھا کہ تلاش اپنی تھی

اک چمکتا ہوا جذبہ تھا کہ جعلی نکلا

میں نے چاہا تھا کہ اشکوں کا تماشا دیکھوں

اور آنکھوں کا خزانہ تھا کہ خالی نکلا

اک نئی دھوپ میں پھر اپنا سفر جاری ہے

وہ گھنا سایہ فقط طفل تسلی نکلا

میں بہت تیز چلا اپنی تباہی کی طرف

اس کے چھٹنے کا سبب نرم خرامی نکلا

روح کا دشت وہی جسم کا ویرانہ ہے

ہر نیا راز پرانا لگا باسی نکلا

صرف حشمت کی طلب جاہ کی خواہش پائی

دل کو بے داغ سمجھتا تھا جزامی نکلا

اک بلا آتی ہے اور لوگ چلے جاتے ہیں

اک صدا کہتی ہے ہر آدمی فانی نکلا

میں وہ مردہ ہوں کہ آنکھیں مری زندوں جیسی

بین کرتا ہوں کہ میں اپنا ہی ثانی نکلا

(802) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Saqi Faruqi. is written by Saqi Faruqi. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Saqi Faruqi. Free Dowlonad  by Saqi Faruqi in PDF.