ملاقاتوں کا ایسا سلسلہ رکھا ہے تم نے
ملاقاتوں کا ایسا سلسلہ رکھا ہے تم نے
بدن کیا روح میں بھی رت جگا رکھا ہے تم نے
کوئی آساں نہیں تھا زندگی سے کٹ کے جینا
بہت مشکل دنوں میں رابطہ رکھا ہے تم نے
ہم ایسے ملنے والوں کو کہاں اس کی خبر تھی
نہ ملنے کا بھی کوئی راستہ رکھا ہے تم نے
جنوں کی حالتوں کا ہم کو اندازہ نہیں تھا
دیے کہ شہ پہ سورج کو بجھا رکھا ہے تم نے
ہوا کو حبس کرنا ہو تو کوئی تم سے سیکھے
دریچے بند دروازہ کھلا رکھا ہے تم نے
اب ایسا ہے کہ دنیا سے الجھتے پھر رہے ہیں
عجب کیفتیوں میں مبتلا رکھا ہے تم نے
خزاں جیسے ہرے پیڑوں کو رسوا کر رہی ہے
سلوک ایسا ہی کچھ ہم سے روا رکھا ہے تم نے
رہائی کے لیے زنجیر پہنائی گئی تھی
اسیری کے لیے پہرا اٹھا رکھا ہے تم نے
بریدہ عکس لرزاں ہیں لہو کی وحشتوں میں
یہ کیسا آئینہ خانہ سجا رکھا ہے تم نے
جہاں کردار گونگے دیکھنے والے ہیں اندھے
اسی منظر سے تو پردہ ہٹا رکھا ہے تم نے
محبت کرنے والے اب کہاں جا کر ملیں گے
گزر گاہوں کو تو مقتل بنا رکھا ہے تم نے
(559) ووٹ وصول ہوئے
In Urdu By Famous Poet Saleem Kausar. is written by Saleem Kausar. Enjoy reading Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Saleem Kausar. Free Dowlonad by Saleem Kausar in PDF.
Sad Poetry in Urdu, 2 Lines Poetry in Urdu, Ahmad Faraz Poetry in Urdu, Sms Poetry in Urdu, Love Poetry in Urdu, Rahat Indori Poetry, Wasi Shah Poetry in Urdu, Faiz Ahmad Faiz Poetry, Anwar Masood Poetry Funny, Funnu Poetry in Urdu, Ghazal in Urdu, Romantic Poetry in Urdu, Poetry in Urdu for Friends