Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_eb0b59430faf88a513b865b2162ad994, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
من یوم الحساب - ساجدہ زیدی کی شاعری - Darsaal

من یوم الحساب

مجھے بے رحم ہستی کے زیاں خانے میں کیوں بھیجا گیا

کیوں حلقۂ زنجیر میں رکھ دی گئیں بے تابیاں میری

ہر اک منظر مری نظروں کا جویا تھا

فروزاں شاخساروں پر ہجوم رنگ و بو

اڑتا ہوا ابر رواں

سیماب پا موجیں

صبا کا رقص بے پروا

شب مہتاب کا افسوں

مہ و انجم کے رقصاں دائرے

روئے شفق

تاباں افق

دریاؤں کی رفتار

شب کے جاگتے اسرار

صحرا کا منور سینۂ عریاں

طلسم بیکراں کے خواب گوں سائے

مری راتوں میں مثل برق لہرائے

ستاروں کی تجلی میں تھا حرف کن کا افسانہ

بڑا فیاض تھا فطرت کا شانہ

کئی صحرا مرے گام تمنا کے شناسا تھے

وہ حرف و صوت کی وادی

وہ ذوق شعر کا جادہ

وہ عرفاں کے گریزاں آستانوں پر جبیں سائی

وہ دانش کی پذیرائی

وہ معنی کی گھنیری چھاؤں میں

ذہن رسا کا کشف وہ

اسرار کے پردے کے پیچھے

دل کی محشر خیز آوازیں

وہ غم ہائے نہانی سے فروزاں ذوق بینائی

وہ دامن کا ہر اک خار مغیلاں سے الجھنا

طول و عرض دشت و دریا پار کر جانا

وہ ہر ذرے میں دھرتی کی صدا سننا

وہ ہر قطرے کے آئینے میں

نور حسن مطلق کا لرزنا

دل نظر حرف و ہنر کا ایک ہو جانا

تکلم جستجو رفتار و غم کا مدعا پانا

کوئی عیسیٰ نفس دیتا تھا نام زیست نذرانہ

لرزتا التہاب آگہی سے تھا مری نظروں کا پیمانہ

گریزاں ساعتوں کے کارواں کو کس نے پکڑا ہے

نظر محو مآل دوش و فردا ہے

کئی دیوار و سقف و سائباں کے منجمد چہرے

کئی اونچی فصلیں راہ میں حائل

کئی بے فیض کاوش ہائے تنہائی

کئی بے مہریاں پیکار بے مفہوم پر مائل

کئی تیروں نے میری خیمہ گاہ شوق کو چھیدا

کئی ترکش ہوئے اس جسم پر خالی ہوئی جاتی ہے رزم زندگانی مضمحل گھائل

نشاط و درد کی وہ خوشہ چینی چھوڑ دی ہم نے

عنان حسن و امکاں توڑ دی ہم نے

سکوت شام ہے

بجھنے لگے سارے ایاغ گرم رفتاری

شکستہ تار ہستی کی طرح لرزاں ہیں

گرد و پیش کے سب تار نظر

وہ ساعت آن پہنچی ہے

نگاہ واپسیں کے منتظر ہیں ٹوٹتے تارے

مجھے شاید ہمالہ کی فلک پیمائیاں آواز دیتی ہیں

میں اپنی موت سے

ان برف زاروں کی درخشندہ معیت میں ملوں گی

توڑوں گی حلقۂ زنجیر مہجوری

(548) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Sajida Zaidi. is written by Sajida Zaidi. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Sajida Zaidi. Free Dowlonad  by Sajida Zaidi in PDF.