ریت

ریت پر سویا ہوا ہے آدمی

اس میں سرے سے کوئی جنبش ہی نہیں

مجھے ہول ہوتا ہے

میں اس کے پاس جاتا ہوں

وہاں ریت کا ایک ڈھیر ہوتا ہے

میں اس ڈھیر کو ہاتھ سے چھوتا ہوں

مرے پنجے کا نشان ریت پر بن جاتا ہے

پھر یہ نشان

پانی سے نکلی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپنے لگتا ہے

اور کچھ دیر بعد ساکت ہو جاتا ہے

میرے ہاتھ سے چپکی ریت

جب میرے ساتھ ساتھ چلتی رہی ہے

میں نے اسے کئی بار ہاتھ سے جھاڑنا چاہا

بار بار ہاتھ کو پانی سے دھویا بھی

لیکن ریت ہاتھ سے چھوٹتی ہی نہیں

راہ چلتے ہوئے میں اپنا ہاتھ

جیب میں چھپا کر چلتا ہوں

لیکن مصافحہ کرنے کے لیے تو

ہاتھ جیب سے نکالنا ہی پڑتا ہے

مجھ سے مصافحہ کرنے کے بعد

کوئی آدمی پہلے جیسا نہیں رہتا

کچھ دور جا کر

وہ اپنے ہاتھ سے لگی ریت کو

جھاڑنے کی کوشش کرتا ہے

اور ریت کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتا ہے

ہر گلی اور محلے میں

ہر گھر کی دہلیز پر

آپ کو ریت کے یہ ڈھیر دکھائی دیں گے

ان پر میری انگلیوں کے نشان بھی ملیں گے

خود میری پیٹھ پر بھی

ایسا ہی ایک نشان ہے

ایک دن یہ سارے ڈھیر یکجا کر دئیے جائیں گے

ایک بڑا سا ڈھیر بنا دیا جائے گا

یہ سارا کام

ایک شخص تن تنہا کرے گا

پھر وہ ڈھیر پر بنے اس نشان کو

اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لے گا

(522) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Saeeduddin. is written by Saeeduddin. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Saeeduddin. Free Dowlonad  by Saeeduddin in PDF.