کیسے کٹے قصیدہ گو حرف گروں کے درمیاں

کیسے کٹے قصیدہ گو حرف گروں کے درمیاں

کوئی تو سر کشیدہ ہو اتنے سروں کے درمیاں

ایک تو شام رنگ رنگ پھر مرے خواب رنگ رنگ

آگ سی ہے لگی ہوئی میرے پروں کے درمیاں

ہاتھ لیے ہیں ہاتھ میں پھر بھی نظر ہے گھات میں

ہم سفروں کی خیر ہو ہم سفروں کے درمیاں

اب جو چلے تو یہ کھلا شہر کشادہ ہو گیا

بڑھ گئے اور فاصلے گھر سے گھروں کے درمیاں

کیسے اڑوں میں کیا اڑوں جب کوئی کشمکش سی ہو

میرے ہی بازوؤں میں اور میرے پروں کے درمیاں

جام سفال و جام جم کچھ بھی تو ہم نہ بن سکے

اور بکھر بکھر گئے کوزہ گروں کے درمیاں

جیسے لٹا تھا شوقؔ میں یوں ہی متاع‌ فن لٹی

اہل نظر کے سامنے دیدہ وروں کے درمیاں

(691) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Razi Akhtar Shauq. is written by Razi Akhtar Shauq. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Razi Akhtar Shauq. Free Dowlonad  by Razi Akhtar Shauq in PDF.