نہ جانے کب بسر ہوئے نہ جانے کب گزر گئے

نہ جانے کب بسر ہوئے نہ جانے کب گزر گئے

خوشی کے انتظار میں جو روز و شب گزر گئے

ہر آنے والے شخص کا دباؤ میری سمت تھا

میں راستے سے ہٹ گیا تو سب کے سب گزر گئے

مرے لیے جو وقت کا شعور لے کے آئے تھے

مجھے خبر ہی تب ہوئی وہ لمحے جب گزر گئے

سمندروں کے ساحلوں پہ خاک اڑ رہی ہے اب

جو تشنگی کی آب تھے وہ تشنہ لب گزر گئے

مگر وہ تیرے بام و در کی عظمتوں کا پاس تھا

تری گلی سے بے ادب بھی با ادب گزر گئے

وفور انبساط میں کسے رہیں گے یاد ہم

اگر جہان رنگ و بو سے بے سبب گزر گئے

بجا ہے تیرا یہ گلہ کہ میں بہت بدل گیا

دراصل مجھ پہ حادثے ہی کچھ عجب گزر گئے

کہیں کہیں تو راہ بھی خود ایک سد راہ تھی

مگر ہم ایسے سخت جاں بہ نام رب گزر گئے

ہوئی نہ قدر مہر کی خلوص رائیگاں گیا

رہ وفا سے رشکؔ ہم وفا طلب گزر گئے

(441) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Rashk Khaleeli. is written by Rashk Khaleeli. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Rashk Khaleeli. Free Dowlonad  by Rashk Khaleeli in PDF.