اپنے نام ایک نظم

اسے دکھ کے ساتھ بیاہا گیا

کہ جب آنکھ کھلی تو سر پر سورج جلتی ناند میں دھول

اسے دھوپ کے ساتھ بیاہا گیا

کہ جو شام پڑے سے دن گزرے تک سوتی تھی

اسے نیند کے ساتھ بیاہا گیا

کہ جو آج کے خواب سے کل کے خواب کا سودا کرتی تھی

اسے بیاہ کے ساتھ بیاہا گیا

کہ جو کشٹ اٹھاتی دھوپ میں بیٹھی سائے سے باتیں کرتی تھی

اسے سائے کے ساتھ بیاہا گیا

ملاحوں نے اس کی آنکھوں کی تعریف نہیں کی

بچے اس کو دیکھ کے رکے نہیں

لڑکیاں اس کے لباس پہ چونکیں نہیں

اسے یوں دفنایا جیسے مچھلیاں جال سے جال میں ڈالتے ہیں

اسے یوں نہلایا جیسے بارش آبی پودوں کو نہلا کر خوش ہوتی ہے

اسے شام کے ساتھ وداع کیا

جب چاند گھنے بادل میں چھپتا پھرتا تھا

اور آنکھیں چننے والی مچھلیاں چنی گئی تھیں

اور ناؤ نے ناؤ کے ساتھ گناہ کیا تھا

مٹی پانی کے بیٹے یہ سب کچھ دیکھ چکے ہوتے تو دہشت سے پہلے مر جاتے

یہ دریا دن سے دروازے پر رکا ہوا ہے

دن جو آگاہی ہے

صبح کو بستر تہ کرنے

دھوپ میں توشک پھیلانے

کپڑے بستر بند سکھانے

رات کی بتی گل کرنے

زنجیر ہلا کر دیکھنے کی آگاہی

یہ دریا دن سے دروازے پر رکا ہوا ہے

یہ دریا رات کو اندر در آئے گا

رات عجب پچھتاوا ہے

اپنے دوسرے کی پہچان کا

دن کو گھر آنے

اک نسل کا قرض اتارنے

کانٹے چبھ کر مر جانے کا پچھتاوا

یہ رات یہ دن کیا تابڑ توڑ گزرتے ہیں

جب اوپر پانی چلتا ہے

اور نیچے مٹی سوتی ہے

اور کوئی من میں پکارتا ہے

مولا مجھ کو بادل کر دے

اور اک پچھلی رات اچانک چیخ کسی کو آ لیتی ہے

اور گھر کا گھر اٹھ جاتا ہے

اور دن کے بہلاوے میں رات بتائی جاتی ہے

اس موسم پانی آگے آئے گا تم گھر میں مت سونا

جب چھت کی کھچچی جھک جائے

اور پانی چھل چھل دکھتا ہو

تب باہر سونا اچھا رہتا ہے

پھر موسم اپنے موسم ہو جاتے ہیں

اور رت کنیا پازیب اتار کے پھینکتی ہے

پھر کوئی کسی سے یہ نہیں کہتا

مولا مجھ کو بادل کر دے

یا سوتی مٹی

یا چلتا پانی

پھر کوئی کسی سے کچھ نہیں کہتا

پھر سب اپنی سنتے ہیں

پھر بادل بارش رات زمیں سب اک چادر میں سوتے ہیں

اور اک چادر میں چلتے ہیں

اور ہوتے ہیں اور نہیں ہوتے ہیں

اور لفظ کا واحد سرمایہ خاموشی ہے

اور جو لفظ نہیں سنتے ہیں خاموشی بھی نہیں سنتے ہیں

جب پہلو دار ستون سے ٹیک لگائے لڑکی سوتی ہے

اور حوض کے پاس کھڑے شہزادے

اور ان کی باندیاں

اور سارا شہر

اس آن کہیں چپکے سے ان میں ہو جانا

اور نہیں کہنا میں آیا ہوں

اچھا ہے

آگاہی اور پچھتاوے اور ایسی موت سے جو یکسر نا معلوم میں ہے

(475) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Apne Nam Ek Nazm In Urdu By Famous Poet Mohammad Anvar Khalid. Apne Nam Ek Nazm is written by Mohammad Anvar Khalid. Enjoy reading Apne Nam Ek Nazm Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Mohammad Anvar Khalid. Free Dowlonad Apne Nam Ek Nazm by Mohammad Anvar Khalid in PDF.