Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_3cdf3350e9d8ffc3f89131970ec43faf, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
روشن کیا جو حق نے چراغ انتقام کا - مرزا سلامت علی دبیر کی شاعری - Darsaal

روشن کیا جو حق نے چراغ انتقام کا

1

روشن کیا جو حق نے چراغ انتقام کا

دل صر صر فنا سے بجھا اہل شام کا

اندھیر کچھ گھٹا فلک نیلی فام کا

تلنے لگا سفید و سیہ صبح و شام کا

گل شمع فتح کا صفت غنچہ کھل گیا

مختار کو جہاد کا پرونہ مل گیا

2

ہمت پکاری ظالموں کے قلب چاک کر

بو جہل سیرتوں کو خراب و ہلاک کر

اصحاب بو تراب کا دل غم اسے پاک کر

احباب بو لہب کو جلا کر تو خاک کر

عنتر کے ہمسروں کا جدا تن سے فرق کر

مرحب کی قوم کوچۂ ہب ہب میں غرب کر

3

ہاں گلشن قصاص کو خنجر سے آب دے

ہاں تیر کی زباں سے عدو کو جواب دے

ہاں اتقیا کو مژدۂ اجرو ثواب دے

ہاں اشقیا کو وعدۂ قہر و جواب دے

سر سبز برق نیزہ سے تخم مراد کر

روشن نسیم تیغ سے شمع جہاد کر

4

ہمت کا درس تجھ کو سکندر سے چاہئے

جرأت کا اخذ مالک اشتر سے چاہئے

خدمت کا بادہ کاسۂ قنبر سے چاہئے

نقد خلوص کیسہ بوذر سے چاہئے

اسلام میں برابر سلماؓ ںمکیں ہو تو

اخلاص میں اویس قرن کے قریں ہو تو

5

یوں خضر حکم حق جو ہوا اس کا رہنما

لبیک کی سکندر طالع نے دی ندا

سکہ پڑا سفید و سیہ پر جدا جدا

چاندی دکھائی چاند نے خورشید نے طلا

بولا قرار کون و مکاں میں بھلا کرے

وہ کیجئے کہ کون و مکاں حق عطا کرے

6

اور چتر سر بنے پر وبال ہمائے فتح

کی زیب تن قضا و قدر نے قبائے فتح

روح القدس نے چہرے پہ دم کی دعائے فتح

شوکت نے غرب و شرق میں کھولا لوائے فتح

یاں تک دراز آرزوئے جنگ ہوگئی

تن پر قبائے ہفت فلک تنگ ہوگئی

7

دکھلایا آفتاب نے آئینہ با ادب

چار آئینہ بھی اپنا جری نے کیا طلب

دکھلا کے چار چار پہر اپنے روز و شب

بولا یہ پیش کش ہو ہماری قبول اب

اک دن کا چار آئینہ ہے ایک رات کا

حافظ خدا ہے آٹھ پہر تیری ذات کا

8

آہن کا خود مرتبہ پارس کا کیوں نہ پائے

یہ پیرو حسینؑ جسے اپنے سر چڑھائے

درجے سر بلند نے یہ خود کے بڑھائے

مضمون جس کے پیر فلک کے نہ ہاتھ آئے

نازاں ہوا یہ خود سر بے عدیل پر

پھینکی کلاہ فتح نے عرش جلیل پر

9

زیب کمر وہ تیغ ظفر کی پئے مصاف

جو سرکشان دہر کے سر پر تھی موشگاف

باندھی جری نے وہ سپر آسماں غلاف

سورج گہن میں آئے جو ہواس سے بر خلاف

ترکش میں چیدہ چیدہ خدنگ اس نے بھر لئے

عقرب پئے اقارب شمر و عمر لیے

10

وہ دونوں رخ تھے یا کہ پئے نذر شیر حق

شمس و قمر لیے تھے زر وسیم کے طبق

لب کہ وہ جن کے رنگ سے گل ہو عرق عرق

اور کلیات غنچہ پریشاں ورق ورق

کیا خط و عارض و لب و گیسو سے کام تھا

مختار چین و روم و سمرقند و شام تھا

11

اور نطق طوطی شکرستان ذکر حق

یا دفتر مناقب حیدرؑ کا اک ورق

تھی وہ زبان بلبل سدرہ سے ہم سبق

کہتا تھا اس زباں سے وہ صادق جو حرف حق

وصف علیؑ و آل نبیؐ برزبان ماست

گویا زباں برائے ہمیں دردہان ماست

12

ہمدست لاکھ رستم دستاں ہوں اس سے کب

ہاتھ اس کا تھا وہ ہاتھ کہ جس نے بحکم رب

کی بیعت امام زبردستوں سے طلب

جو دست بیع اس سے ہوا درجے پائے سب

چوما قدم تو خلد کے آٹھوں چمن ملے

پہنچا جو ہاتھ پنجے تلک پنچتن ملے

13

وہ دونوں ہاتھ تھے الف انتقام کے

وہ دو الف شریک ازل سے امام کے

ہنگام جنگ تیغ و سپر تھام تھام کے

اعدا سے لیں قصاص شہ تشنہ کام کے

بے ان کے داد خواہ کبھی معترف نہ ہوں

انصاف نصف ہووے جو یہ دو الف نہ ہوں

14

رگ رگ میں ریشے ریشے میں تھا جوہر وفا

پیدا ہوا تو مادر مختار نے سنا

ہاتف نے دی ندا میں پسر پر ترے فدا

اک دن قصاص لے گا یہ بے کس حسینؑ کا

یہ شیفتہ ہے فاطمہؑ کے نور عین پر

واجب شفاعت اس کی ہے روح حسینؑ پر

15

حقا کہ جز فضائل مختار خوش خصال

گر ہے کوئی حدیث تقیے پہ ہے وہ دال

جب رن میں باغ فاطمہؑ ہوتا تھا پائمال

روکر حسینؑ کہتے تھے ا ئےرب ذوالجلال

باغی تباہ کرتے ہیں گلزار کو مرے

مختار کر قصاص کا مختار کو مرے

16

سجاد سے یہ چند حدیثوں میں ہے خبر

محسن ہے اہل بیت کامختار نامور

کیا ہم کو اختیار تھا جب مرگئے پدر

پوشاک ماتم اس نے بدلوائی سر بسر

لازم ہے دوستان حسینؑ شہید کو

تحسین اسے کیا کریں نفریں یزید کو

17

کونے میں جب کہ آئے تھے مسلم نکو سیر

بیعت سے ان کی پہلے ہوا تھا یہ بہرہ ور

ٹھہرا کے یہ قصور بس اس بے قصور پر

خواہان جان و مال تھا مرجانہ کا پسر

آہوئے کعبہ رن میں جب امت کا صید تھا

مختار قید خانے میں کونے کے قید تھا

18

واں رن میں سر حسینوں کے ہوتے تھے قلم

زنداں کے در پہ سر پہ پٹکتا تھا دم بدم

دیتا تھا کربلا کو ندا وہ اسیر غم

افسوس اے حسینؑ نہیں اپنے بس میں ہم

کھیتی لٹی بتولؑ کی دشت جہاد میں

سادات آئے مجلس ابن زیاد میں

19

ابن زیاد بولا کہ مختارؑ کو بلاؤ

سیدانیوں کے ہاتھ بندھے اس کو بھی دکھاؤ

لائے تو پوچھا بیوؤں کو کیادوں سزا بتاؤ

لو تم بڑے محب ہو انہیں قید سے چھڑاؤ

ہیں سر برہنہ فکر لباس و ردا کرو

مومن تو ہو حمایت آل عبا کرو

20

مشکیں بندھی تھیں رو کے دلاور نے یہ کہا

بدلا نہ اس کا لوں تو جبھی کہیو تو بھلا

کہتے ہیں اس گھڑی سے وہ رویا کیا سدا

زنداں سے بھی چھٹا تو اسیر الم رہا

ہر روزیہ دعا تھی کہ روز جہاد ہو

طالع خدا کے مہر سے صبح مراد ہو

21

مقبول کی خدا نے یہ دیندار کی دعا

یعنی یزید نحس نے کی شام میں قضا

عازم قصاص کا ہوا مختار باوفا

عابد کے آستانے پہ آیا پئے رضا

در پر سنا کہ بیبیوں میں شورو شین ہے

عاشور سے زیادہ عزائے حسینؑ ہے

22

زینبؑ کی آرہی ہے یہ آواز وا اخا

بانوؑ پکارتی ہے کہ اکبرؑ کدھر گیا

بیمار ایک لڑکی یہ کہتی ہے برملا

ہے ہے نہ میرے درد کی اب تک ملی دوا

بھولے بہن کو اکبرؑ عالی خصال بھی

بابا نہ کربلا سے پھرے اب کے سال بھی

23

القصہ سن کے آمد مختار کی خبر

در پر امام آئے حرم سب قریب در

مختار نے قدم پہ جھکایا ادب سے سر

دل میں جو آرزو تھی کہی ہاتھ باندھ کر

فرمایا مسکرا کے شہ بے نظیر نے

ہم کو خبر یہ دی ہے جناب امیرؑ نے

24

پھر پشت سے لباس مبارک اٹھا کے ہائے

مولا نے تازیانوں کے اس کو نشان دکھائے

زینبؑ پکاریں بھائی اگر شمر ہاتھ آئے

سر اس کا کاٹ لیجیو جیتا نہ جانے پائے

بولی سکینہؑ سب سے وہ ظالم زیاد ہے

اس کا طمانچہ آج تلک مجھ کو یاد ہے

25

اس نے کہا بفضل خدا ہوئے گا یونہیں

سنیو کہ غرق خوں ہوئی کوفے کی سب زمیں

سجاد سے ودا ع ہوا پھر وہ اہل دیں

آئی ندا بقیع سے مختار آفریں

اب تک وہی ہے جوش مرے شور و شین کا

ہاں انتقام لے مرے بے کس حسینؑ کا

26

عابدؑ نے اک غلام سے اپنے کیا خطاب

کہتے تھے اس کو فارس ہیجا ابوتراب

لے جا مرا فرس وہ دے آیا اسے شتاب

غازی چڑھا جو اس پہ ہوئی فتح ہم رکاب

بیمار کربلا کا وہ رخش صبیح تھا

صحت کے ساتھ چلنے میں نبض مسیح تھا

27

اس تیز رو کو کاہ سے تھی نفرت دلی

یعنی کہ لفظ کاہ میں ہے حرف کاہلی

گردش سے چرخ راہ کی جس دم عناں ہلی

حقا ہوائے خلد اسے کھانے کو ملی

پریاد ذوالجناح میں اندوہناک تھا

جیب ہلال نعل اسی غم سے چاک تھا

28

رفتار گرم سے دل سیماب پارہ تھا

ہر قطرۂ عرق سے یہ حسن آشکارا تھا

طوفان پر جہاز ہوا پر ستارہ تھا

بادل پہ برق آب رواں پر شرارہ تھا

آندھی کی طرح آتا تھا وہ رزمگاہ میں

لیکن چراغ نعل کے روشن تھے راہ میں

29

دل سے میان راہ پہ مختار نے کہا

لے نائب حسینؑ سے تو جنگ کی رضا

اب چل پئے زیارت مظلوم کربلا

تو گو کہ با وفا ہے پہ ہے عمر بے وفا

لازم زیارت پسر بوترابؑ ہے

ہر ہر قدم پہ عمرۂ و حج کا ثواب ہے

30

لکھتا ہے کربلا میں جو آیا وہ باوفا

پڑھنے لگا زیارت قبر شہ ہدا

بولا لپٹ کے قبر سے روحی لک الفدا

اے تشنۂ سقیفہ و صحرائے کربلا

اے فخر صد ذبیح و صد ایوب السلام

محبوب ذوالجلال کے محبوب السلام

31

کچھ اپنے سوگواروں کی تم کو خبر ہے آہ

زینب تری بہن کفنی پہنے ہے سیاہ

روتی ہے شام سے ترے حجرے پہ تاپگاہ

اوروں کا قبر فاطمہؑ پر حال ہے تباہ

ہمشکل مصطفی سے یہ کہہ دو مزار میں

صغراؑ کھڑی ہے در پہ ترے انتظار میں

32

تقدیر میں سکینہؑ نے ماتم جو پایا ہے

چھوٹا سا ایک تعزیہ خانہ بنایا ہے

عباسؑ کا علم سر منبر لگایا ہے

عابدؑ سے رو کے کہتی ہے غم دل پہ چھایا ہے

بھائی بہن حقوق شہ دیں ادا کریں

تم مرثیہ پدر کا پڑھو ہم بکا کریں

33

بہلانے اس کو آتی ہیں ہمجولیاں اگر

کہتی ہے اب نہ کھیلوں گی میں تم میں بیٹھ کر

تم سب ہو باپ والی میں دکھیا ہوں بے پدر

ماتم ہے کربلا کے شہیدوں کا میرے گھر

اماں ہماری بیوہ ہوئیں بابا مرگئے

رونے کے دن میں کھیلنے کے دن گزر گئے

34

سمجھانے کو سکینہؑ کے اب آپ جائیے

صغراؑ کو خواب میں رخ اکبرؑ دکھائے

کبراؑ ہے بے قرار گلے سے لگائیے

روتی ہے ماں کی قبر پہ زینبؑ اٹھائیے

عابدؑ کی لو خبر کہ بہت ناتوان ہے

بالائے پشت نیزوں کا اب تک نشان ہے

35

کانپا ہر ایک نام پہ شبیرؑ کا مزار

اس نے حضور قبر دھری تیغ آبدار

اور عرض کی کہ اے پسر شاہ ذوالفقار

بندھوائیں آپ تیغ تو ہوئے کشود کار

اذن جہاد مانگتا ہوں کس امید سے

اس لب سے حکم دو جو کھلا چوب بید سے

36

یہ کہتے کہتے ہو گیا بے ہوش وہ سعید

پر عین غش میں دیدۂ باطن کی تھی یہ دید

روضہ میں برج قبر سے نکلا ہلال عید

اور یا حسینؑ کہہ کے اٹھے قبروں سے شہید

ہاتھوں پہ سر کٹے شہدا تھے لیے ہوئے

زہراؑ جلو میں بال پریشاں کئے ہوئے

37

ہے پیش پیش فوج خدا حر نامور

باندھے ہوئے بتولؑ کا رومال حق پر

سردار کے قریب علمدار خوش سیر

اصغرؑ کی لاش گود میں شہ کی لہو میں تر

بولا کہ سہل عقدۂ دشوار ہیں مرے

اتنے خدا کے شیر مددگار ہیں مرے

38

مختار کو حسینؑ نے اس وقت دی ندا

نانا سلام کہتے ہیں اماں تجھے دعا

مظلوم کے قصاص کا خواہاں ہے مرحبا

دنیا میں فتح حشر میں فردوس دے خدا

تحقیق کرکے ناریوں کو نار دیجیو

حیدرؑ کے دوستوں کو نہ آزار دیجیو

39

پھر شاہ نے خطاب یہ عباسؑ سے کیا

ہاں میرے شیر تو اسے شمشیر کر عطا

سیف خدا نے تیغ اسے دے کے یہ کہا

سقائے فوج ہم ترے ہوں گے دم وغا

لے تیغ باندھ ہو تجھے ملک و عمل نصیب

قبضہ تجھے نصیب اور اعدا کو پھل نصیب

40

آنکھیں کھلیں کریموں کے لطف عمیم سے

کھلتے ہیں جیسے صبح کو غنچے نسیم سے

رخصت ہوا مزار امام کریم سے

گویا مقام طور کا چھوٹا کلیم سے

یوں تیز رو تھا منزل مقصد کی راہ میں

جس طرح ذوالفقار علیؑ حرب گاہ میں

41

کوفے میں پھر کے کوچہ بہ کوچہ یہ دی صدا

یاروں کوئی شہید ہے بے کس حسینؑ سا

جس کی نہ کچھ دیت نہ قصاص اور خوں بہا

اک تن سے خون پنجتن پاک کا بہا

ایسا بھی ملتوی کوئی دعویٰ رہا نہیں

سید کا خوں بہا ہے مگر خوں بہا نہیں

42

ابن ابو تراب کی الفت ہے تم کو خاک

خاک عزا سے گیسوئے زینب کئے نہ پاک

یثرب میں جا کے دیکھو لباس حرم ہے چاک

اور کربلا میں حوروں کی ہے آہ دردناک

فوج حسینؑ کا ہوا جنگل میں خاتمہ

زینبؑ وطن میں روتی ہے مقتل میں فاطمہؑ

43

سن آیا کربلا میں فرشتوں کی میں فغاں

ستر ہزار واں مع فطرس ہیں نوحہ خواں

دیکھ آیا غش میں فوج خدا کی شکوہ و شاں

رنگیں کفن گلوں میں جراحت سے خوں رواں

اذن جہاد مانگا جو رو کر غلام نے

عباسؑ نے تو سیف رضادی امام

44

ہاں طالبان خون حسینؑ آؤ جلد آؤ

مانند تیغ جوہر مردانگی دکھاؤ

حق تم کو آزماتا ہے تم دل کو آزماؤ

سردو تو کربلا کے شہیدوں کا رتبہ پاؤ

جس کا عقیدہ پاک ہے وہ کامیاب ہے

اب بھی وہی جہاد کا اجر و ثواب ہے

45

یہ خلہ ہے یہ میوہ یہ کوثر ہے یہ جناں

یہ حور یہ قصور یہ طوبیٰ یہ بوستاں

یہ جنس آبرو ہے یہ بیعانہ نقد جاں

یہ گویا رزمگاں یہ چوگاں یہ امتحاں

یہ سر ہے یہ بدن یہ کفن ہے یہ تیغ ہے

شیر خدا کے شیروں کو پھر کیا دریغ ہے

46

یہ سن کے تازہ دم ہوئے حیدرؑ کے د وست دار

مردے ہوں جیسے قم قم عیسی سے ہوشیار

کافور ہفت عضو پہ مل مل کے ایک بار

نکلے پہن پہن کے کفن بہر کارزار

کوچوں میں یہ ہجوم خلائق کا حال تھا

سائے کو ساتھ لے کے گزرنا محال تھا

47

بہر جہاد پیروں نے فورا کیا خضاب

اہل شباب سمجھے خزاں موسم شباب

کنگنا کسی نے کھول کے باندھی کمر شتاب

مشاطہ کو کسی نے دیا بیاہ کا جواب

کہتے تھے فکر عقد نہ خواہش دلہن کی ہے

شادی قصاص خون شہ بے وطن کی ہے

48

زہراؑ کی لونڈیوں کے عقیدوں کو دیکھنا

بچوں کو لا کے جھولے سےمردوں کو دے دیا

پوچھا جو وارثوں نے تو رو رو کے یہ کہا

دعویٰ انہیں بھی ہے علی اصغرؑ کے خون کا

ظلم و جفائے لشکر بے پیر یاد ہے

اصغرؑ کا حلق یاد ہے اور تیر یاد ہے

49

سب نقش دل سے حیدریوں نے مٹادیئے

بیٹوں کو اپنے خلعت عقبیٰ پنہا دیئے

نوشاہوں کو سلاح عروسوں نے لادیئے

اور مہر بخش کر یہ سخن بھی سنادیئے

ظلم عدو یہ لکھ لو دل پاش پاش پر

اک شب کی بیاہی روئی تھی دولہا کی لاش پر

50

فوجوں سے اس قدر ہوئی معمور حرب گہہ

باقی رہی علم کے کھڑے ہونے کی جگہ

ترتیب میمنہ ہوئی ترکیب میسرہ

قلب و جناح سے ہوئی آراستہ سپہ

کوفہ سلاح پوشوں سے آباد ہوگیا

تختہ زمیں کا بیضۂ فولاد ہوگیا

51

کیا دوستان شاہ نجف کی کروں ثنا

نازاں تھی جن کے حسن عقیدت پہ خود ولا

لشکر میں چار حافظ قرآں جدا جدا

پڑھتے تھے چار سمت فصاحت سے ہل اتیٰ

جبریل واں فلک پہ خضرؑ یاں زمین پر

دم کرتے ہیں دعائیں سبھوں کی جبین پر

52

ہاں مومنو یہ فوج ہی فوج امام ہے

مد نگہ نظارۂ ہر خاص و عام ہے

ہشیار جبرئیل کا یاں اہتمام ہے

جاسوس عقل و فکر و تصور کا کام ہے

یوں محو ہو کے سیر کرو ان کے اوج کی

آنکھوں میں مثل سرمہ پڑے گرد فوج کی

53

پیر و جواں کھڑے ہیں برابر چہل ہزار

تیر و کماں کی طرح مہیائے کارزار

کہتی ہے روح فاطمہؑ حسرت سے بار بار

ہے ہے نہ کربلا میں ہوئے یہ رفیق و یار

جب رن کے قصد تھا خلف بوتراب کو

جنت سے آ کے تھاما تھا میں نے رکاب کو

54

مختار کے غلام میں دو صاحب ہنر

اک فتح ایک خیر نہیں جن کے دل میں شر

جب ہو غلام فتح تو کیونکر نہ ہو ظفر

پیدا ہے فتح طالع مختار نامور

اک دیکھتا ہے ایک کے رخ کو سپاہ میں

مصحف کو ختم کرتے ہیں سب اک نگاہ میں

55

نازل یزیدیوں پہ جو حق کا غضب ہوا

اجماع دوستان امیر عرب ہوا

ماتم حسینوں کا عدالت طلب ہوا

مختار نامور کو یہ الہام رب ہوا

ہاں بند راہ فتنے کی تیغ رواں سے کر

ہاں فتح باب فتح کلید سناں سے کر

56

لہرا رہا ہے غازیوں کے سر پہ وہ علم

دامن پہ جس کے نام علیؑ ولی رقم

پھر یہ علم ہے دست علمدار میں علم

یا بہر استغاثہ اٹھا نالۂ حرم

پنجے سے اس کے چہرۂ خورشید زرد ہے

زنیت کا مد آہ ہے رتبے میں فرد ہے

57

چہرے پہ نوجوانوں کے پیدا خط شباب

اک نقطہ ان کے خال کا ہے حسن کی کتاب

دیکھیں جو آئینے میں خط رخ کی آب و تاب

جوہر خط شعاع ہو آئینہ آفتاب

رخ پر عرق کو دیکھ کے حیرت بڑی ہوئی

ہے دن کو آفتاب پہ شبنم پڑی ہوئی

58

رخ پر ہیں قطرہ ہائے عرق در آبدار

یا ایک برگ گل کے نگہبان ہیں ہزار

خورشید پر ستارے ہیں غلطیدہ بے شمار

یا ماہتاب کے ہیں جگر گوشے آشکار

جس دم ڈھلیں یہ عارض پر آب و تاب سے

سیارے ہوں فلک پہ ثوابت حجاب سے

59

آنکھوں سے آشکار ہےعلم و حیا تمام

خورشید و ماہ آنکھ چراتے ہیں صبح و شام

کیا میم مردمک کی ضیا میں کروں کلام

شمس و قمر کے دل میں ہے اس میم کا مقام

چشم سیہ کا وصف ہے باہر حساب سے

آنکھوں میں چھپتا پھرتا ہے سرمہ حجاب سے

60

پیشانیوں کا ان کی کہوں کیا جلال و جاہ

تاریک شب میں بھی اگر ان پر کو نگاہ

پڑھ لو نماز صبح فضیلت کے وقت واہ

خال جبیں سفیدے کی جا صبح کا گواہ

ابرو سے تیس شب ہے نظارہ ہلال کا

حد حساب ایک ہے یاں ماہ و سال کا

61

مکتوب حسن گردن انور بہ تاب و آب

اک مد ہلال اس کا ہے اک فرد آفتاب

گوہر طرف پڑا ہے شب زلف کا حجاب

لیکن عیاں ہے مطلع گردن کی آب و تاب

گردن کا نور گیسووں سے آشکار ہے

خورشید نکلا پردۂ شب تار تار ہے

62

رخ گلشن بہشت ہے غیرت دہ ارم

نہر اس میں شیر و شہد کی دندان و لب بہم

ہے خط رخ و ہ خوب کہ لکھیں ثنا جو ہم

اصلاح سے بری ہو یہ سب نظم یک قلم

کیونکر کوئی نوشتۂ حق کو غلط کہے

جس کو سواد خط نہ ہو وہ اس کو خط کہے

63

بینی کا کیا قلمر و رخ پر ہے عز و جاہ

زیر قلم ہے حسن کا کشورازل سے آہ

چہرے کو چاند کہتے ہیں سب صاحب نگاہ

بینی ہے بیچ میں کہ الف درمیان ماہ

بینی کے وصف لکھنے کی کیوں آرزو نہ ہو

بے اس الف کے لاکھ لکھو آبرو نہ ہو

64

وصف دہان تنگ میں عالم کشادہ لب

اک نقطے میں زمانے کا مضموں بھرا ہے سب

انگشت حیف ہے تہ دنداں کہ ہے غضب

وہ کربلا میں خشکی حلق شہ عرب

مرنے پہ منہ کھلا تھا شہ مشرقین کا

نیزے سے کٹ گیا لب بالا حسینؑ کا

65

دنداں ذرا بھی وقت تبسم جو ہوں عیاں

مثل صدف کہر سے ہو لبریز آسماں

شکر فروش مصر حلاوت ہر اک زباں

رنگینی کلام ہے شیرینیٔ بیاں

حیراں لبوں کے نور سے اہل کمال ہیں

یہ ہونٹ ہیں کہ زیر و زبر دو ہلال ہیں

66

موئے کمر کی یہ قد گلگوں میں ہے بہار

جس طرح لعل سے ہو رگ لعل آشکار

پٹکے سے اور بھی ہوا یہ نقطہ پیچیدار

معنی میں عقل و فہم الجھتے ہیں بار بار

سادہ ہی نقش رہنے دیا اس مراد کا

کھل جائے گا بندھا ہوا مضموں جہاد کا

67

قد راستی سے سایہ صفت پیرو امام

جاکر حریم باغ میں گر یہ کریں قیام

اپنا امام جان کے ہر قد کو لا کلام

سرو چمن نماز پڑھیں پشت پر تمام

ارزاں ملے تو مول یہ طوبیٰ کو لیتے ہیں

بیعانہ سدرہ کا الف قد سے دیتے ہیں

68

خوبی و فور نور بدن کی ہے یہ عیاں

کڑیاں زرہ کی ہیں رگ جاں کی طرح نہاں

جو شے نظر نہ آئے کروں اس کا کیا بیاں

سب کو گماں زرہ کا ہے لیکن زرہ کہاں

صاحب ہنر محب ہیں شہ ذوالفقار کے

پہنا ہے بر میں تیغوں کا جوہر اتار کے

69

ہیں خودوہ کہ جن سے بروج فلک ہیں کم

ہاتھوں میں یک قلم الف تیغ ہیں علم

خط شکست فرد سپر پر کریں رقم

دیکھو کمان و تیر بھی ہیں نون و القلم

نور سپر کے جلوے سے پر نور ہے زرہ

یہ طور ہیں تو سورۂ والطور ہے زرہ

70

حسن سلاح یہ ہے سنو زور کا بیاں

پائے شکوہ کوہ پہ رکھیں جو یہ جواں

سرمہ ہو کوہ چار طرف چشمے ہوں رواں

چاہیں زمیں بلند کریں مثل آسماں

جب کہہ کے یا جناب امیرؑ آئیں جوش پر

مثل سپر فلک کو بھی رکھیں یہ دوش پر

71

پنجے سے گر یہ کلۂ رستم کو دیں فشار

دنداں نکل پڑیں صفت دانۂ انار

مثل زرہ یہ جوہر فولاد لیں اتار

نعرہ کریں تو کوہ صدا دیں نہ ایک بار

جب یا حسینؑ کہہ کے یہ قبضے کو چوم لیں

یوسفؑ سے مصر لیں تو سکندر سے روم لیں

72

ہمت یہ ہے جو زرنہ ہو یہ سر عطا کریں

جرأ ت یہ ہے کہ لاکھوں سے تنہا دعا کریں

طلعت یہ ہے کہ ذرے کو شمس الضحیٰ کریں

قدرت یہ ہے کہ شمع سے شعلہ جدا کریں

دشمن اگر فلک پہ بھی وقت جدال جائے

تیغ ان کی آسمان پہ مثل ہلال جائے

73

ہو آگ سرد خوف سے یہ گرم ہوں اگر

لو ہا ہو موم سنگ ہو پانی دم نظر

آہستہ پنجہ رکھ دیں جو دشمن کے پنجے پر

در آئے صاف پنجے میں یوں پنجہ سر بسر

پھر سوزن خرد کو نہ یارا رفو کا ہو

دستانہ ان کے ہاتھ کا پنجہ عدو کا ہو

74

مرکب عراقی و عربی رشک حور طور

یکساں ہر ایک راہ ہے ان گھوڑوں کے حضور

دریا و کوہ پست و بلند و قریب و دور

چل پھر کا امتحاں جو کریں صاحب شعور

غصے سے یاں تلک یہ ضعیف و نزار ہوں

تاگے کی طرح سوئی کے ناکے سے پار ہو

75

بال ان کے شہپر ملک الموت موبمو

والجمع ان سے دوست پریشاں مگر عدو

ہوں قطرہ زن تو چرخ پہ کرلے ہما وضو

محراب نعل میں رہے سجدے کی آرزو

بے بال و پر مثال شرر اڑتے پھرتے ہیں

بن بن کے بجلیاں صف دشمن پہ گرتے ہیں

76

جلاد کربلا کے ہیں موجود اس طرف

خولی و شیث و ابن ربیعئ ناخلف

وہ یا یزید کہتے ہیں یہ یاشہ نجف

تیغیں اپی ہوئی نظر آتی ہیں صف بصف

کس پر جفا و ظلم کا واں خاتمہ نہیں

ہاں بہر ذبح اک پسر فاطمہؑ نہیں

77

گوپال آ ہنی لیے اک سمت بد گہر

بھالے سنبھالے دوش پہ اک طرف نیزہ ور

اک سولئے کمندوں کے حلقے زبوں سیر

تھے اپنے اپنے غول میں وہ غول سر بسر

گرز گراں تھے بعض گراں سر لئے ہوئے

بعضے شریر صارم وجمدھر لئے ہوئے

78

وہ رستمان حرب عرق و عرب کے بل

وہ ٹولیاں سواروں کی وہ پیدلوں کے دل

وہ ڈانڈ پر چمکتے ہوئے برچھیوں کے پھل

سریاں وہ گول گول وہ پیکان چو پہل

اڑنا وہ بیرقوں کا لچکنا نشانوں کا

بل کھانا رایتوں کا دمکنا سنانوں کا

79

تیشے لئے سواروں کے ہمراہ خیل تاش

ہوں جن کے دست جور سے کہسار پاش پاش

بد خواہ و بدمست و بد آئین و بد قماش

جمالوں کی وہ صوت حدی سامعہ خراش

محمل سے تھی کسے ہوئے آنچل ہوائے تند

ناقے تھے یا ہوئی تھی مشکل ہوائے تند

80

کوسوں تلک تھے دامن جنگل میں کینہ خواہ

کوتہ ہوئی تھی وسعت صحرا پئے سپاہ

بھیڑ اس قدر کہ پیک نظر کو ملے نہ راہ

فکر و قیاس وہم جہاں جا کے ہو تباہ

ہم راہ ان خبیثوں کا رہبر مگر ہوا

ناری دخان شعلہ بنے جب گزر ہوا

81

مختار نعرہ زن تھا سوئے لشکر گراں

ہاں بہر حرب و ضرب بڑھو کھول کر نشاں

نکلا ادھر سے مرۂ ظالم لئے سناں

یہ وہ تھا جس نے مارا تھا اکبرؑ کو نوجواں

یاں سے یتیم مالک اشتر رواں ہوا

گویا کہ حلق کفر پہ خنجر رواں ہوا

82

حشمت ابد ابد تھی تو رونق ازل ازل

ہستی پکارنے لگی ہر سو اجل اجل

قالب کا روح کو تھا اشارہ نکل نکل

بولی زمین گاوز میں سے سنبھل سنبھل

ہاں رن میں آمد آمد مرد دلیر ہے

یہ شیر کردگار کے شیروں کا شیر ہے

83

مرہ نے وہ رجز پڑھا جس سے ہوئے وہ غش

بولا شقی میں قاتل اکبرؑ ہوں شیروش

یہ بولے ہم ہیں فدیۂ سادات فاقہ کش

جن کے عزیز رن میں موئے کہہ کے الطعش

ازدر لقب دیا ہے مجھے کرد گار نے

بخشی ہے تیغ فتح شہ ذولفقار نے

84

ازرق یزیدی فوج میں تھا فخر رو و شام

نام آوروں کی تیغوں پہ کندہ تھاجس کا نام

رہتا تھا محو ضرب شجاعوں سے صبح و شام

اور نام ان کے لکھے تھے اک فرد پر تمام

باندھا تھا شانے پر وہ نوشتہ غرور سے

کم جانتا تھا زور سلیماں کو زور سے

85

اک دفعہ خود روم کیا اس نے زیب سر

اور زیب جسم کی زرۂ مصر سر بسر

چار آئینہ حلب کا سنوارا ادھر ادھر

لٹکا لیا کمان کیانی کو دوش پر

مکے کی ڈھال رخ پہ امید نجات میں

ایک تیغ ہند زیر رکاب ایک ہاتھ میں

86

جنبش میں آیا کوہ کی صورت میں وہ شریر

گردش میں لایا نیزے کو مانند چرخ پیر

رہوار مغربی پہ چڑھا بہردار و گیر

زریں کمر غلام لیے سب کمان و تیر

حیران اس کی دید سے ہر ایک جواں ہوا

لشکر سے یا معاویہ کہہ کر رواں ہوا

87

جاکر حضور ابن حسنؑ اس نے دی ندا

ازرق مرا خطاب ہے مشہور جا بجا

اے طفل جنگجو ترا نام و نسب ہے کیا

فرمایا نام قابض ارواح ہے مرا

ہنگامۂ حیات کو اب فوت جانیو

اپنے لیے مجھے ملک الموت جانیو

88

یہ کہہ کے اس لئیم ازل پر کیا جووار

ابرو کی ب کو دو کیا دال دہن کو چار

اللہ رے آتش دم شمشیر شعلہ بار

ارزق کی تیغ پر جو پڑا عکس ایک بار

مثل سپند جوہر شمشیر اڑ گئے

رن کی زمیں سے اختر سیار مڑ گئے

89

کیا کاٹنے میں آب دم تیغ تیز تھا

تیزاب سے بھی تیز بوقت ستیز تھا

رہوار بے حواس دم جست و خیز تھا

پر لنگ انکے ہاتھ سے پائے گریز تھا

پٹکا پکڑ کے لے گئے یوں اس کو زین سے

وہ زین سے جدا ہوا مرکب زمین سے

90

ہم میں بھی ہیں انہیں کے کرم سے یہ سب ہنر

سن ہو گیا یہ سنتے ہی سر ہنگ خیرہ سر

جینے سے ہاتھ اٹھا کے لگائی سناں مگر

غازی نے دار خالی دیا رخش پھیر کر

پھر نیزہ کاٹا تیغ سے یوں ایک ضرب میں

اک نصف شرق میں گرا اک نصف غرب میں

91

نیزے کے بدلے نیزہ لگا یا جو دوڑ کر

شمع سناں کا ہو گیا فانوس اس کا سر

پر وانہ وار چلنے لگے مرغ جاں کے پر

بولے گرا کے آب دہن اس کی ریش پر

دوزخ میں جا یزید کی خدمت کے واسطے

دنیا میں تیرا نام ہے لعنت کے واسطے

92

تنہا ادھر تھے آپ ہزاروں شقی ادھر

اس پر نہ تھا ہر اس زہے دل خوشا جگر

چلتی تھیں برچھیاں کبھی تیغیں کبھی تبر

سب کو جواب دیتی تھی اک تیغ شعلہ ور

پھرتی تھی جب کہ ضرب عدد روک روک کر

دو کرتی تھی ہر ایک کو پھر ٹوک ٹوک کر

93

پر جس شقی پر عکس حسام ظفر گرا

دو ٹکرے ہو کے نصف ادھر نصف ادھر گرا

سائے کی طرح پاؤں پہ سردوڑ کر گرا

غل تھا زمیں پہ کفر و ضلالت کا در گرا

جب وقت ضرب ہاتھ میں شمشیر پھر گئی

مالک کی سب کی آنکھوں میں تصویر پھر گئی

94

تن سے علیحدہ ہوئیں تیغیں مع کمر

قرص سپر کے ساتھ اڑے تیز تیز پر

بکتر زرہ کے ساتھ کٹے ہو کے خوں میں تر

چلوں کے ساتھ ہاتھ تو تھے سر کے ساتھ سر

رایت سناں کے ساتھ جھکے کانپتے ہوئے

پرچم گرے پھر ہروں سے منہ ڈھانپتے ہوئے

95

اک منہ کے دو منہ آئے نظر وہ صفائے تیغ

نابیں تھیں یادو ابروئے جنگ آزمائے تیغ

جوہر تھی یا کہ خندۂ دنداں نمائے تیغ

وہ چم وہ خم وہ باڑھ وہ بانکی ادائے تیغ

زخموں کے گل کھلے جو وہ گلگوں قبا چلی

دل پس گئے جدھر کو وہ نازک ادا چلی

96

پڑھتی ہوئی زبان سے ناد علی پھری

تعزیر اہل شام کو دی جان لی پھری

سینوں میں اور دلوں میں خفی اور جلی پھری

کس کس ادا و ناز سے اٹھی چلی پھری

دامان دشت خون سے گل رنگ ہوگیا

بھاگاجو اسپ کوئی تو چورنگ ہوگیا

97

وہ دم کس اس کا اور وہ چم خم و آب و تاب

آفت کی باڑھ قہر کا کاٹ اور غضب کی آب

جس ناب سے کہ زہرۂ رستم ہو خون ناب

دریائے تیغ ہر پل محشر کا تھا جواب

دریا چڑھا وہ خوں کا کہ پیراک ڈر گئے

نالوں کے پل پہ سر بدنوں سے اتر گئے

98

بسمل پڑے تھے دن میں کہیں کہہ کہیں پہ مہ

نیزوں کے بند قرص سپر حلقۂ زرہ

کھولی اجل نے ناخن تدبیر سے گرہ

استادہ خاک پر کہیں سیسر کہیں پہ زہ

جمدھر کہیں عمود کہیں برچھیاں کہیں

ترکش کہیں خدنگ کہیں اور کماں کہیں

99

شپیرؑ کے غلاموں سے کہتے تھے اشقیا

تم کیا ہو ہم پہ ورنہ ہوئے شاہ دوسرا

ہم نے قلم کیا سر فرزند مرتضیٰ

ہم نے رسولؐ زادیوں کی چھین لی قبا

زندہ خدا کرے اگر ابن بتولؑ کو

پھر کاٹیں بوسہ گاہ جناب رسولؐ کو

100

اصغرؑ جو زندہ ہو تو ابھی تیر پھر لگائیں

زخمی کریں جگر کو جو اکبرؑ کا سینہ پائیں

شانے امام حسینؑ کے بازو کے کاٹ لائیں

مقدور ہو تو بلوے میں سادات کو پھرائیں

منظور قتل عام کی اب سیر ہے تمہیں

شر ہم سے کرنے آئے ہو کچھ خیر ہے تمہیں

101

دیتے تھے یہ جواب غلامان مرتضی

ہاں یہ غرور ہے تمہیں اے لعنت خدا

واں رحم تھا کرم تھا مروت تھی صبر تھا

جتنا خدا کا حکم تھا اتنا ہر اک لڑا

چمکی تھی تیغ جب کہ شہ کم سپاہ کی

کس نے دہائی دی تھی رسالت پناہ کی

102

خیر ان کی ان کے ساتھ شجاعت تھی یا کرم

اب آج اس طرح سے لڑو تم تو جانیں ہم

لیکن حلال خون عدوئے امام ہے

تم کو بھی ماریں بچوں کے سر بھی کریں قلم

کھانا ہمیں حرام ہے پینا حرام ہے

لیکن حلال خون عدوئے امام ہے

103

اک دن میں دیکھ لیجیو کس کس کا خون بہا

کس کس کی عورتیں پھریں کوچوں میں بے ردا

سب کچھ یہ ہم کریں گے مگر وا مصبتا

دل سے مٹے گا داغ نہ زینب کی قید کا

کونین ہوں جو قتل تو راضی خدا نہ ہو

یعنی حسینؑ فاطمہؑ کا خوں بہانہ ہو

104

جب خون ناحق شہدا جوش زن ہوا

اور انتقام کا ترو تازہ چمن ہوا

مختار مورد مدد پنچتن ہوا

محو قصاص قتل شہ بے کفن ہوا

کوفہ سلاح پوشوں سے آباد ہوگیا

تختہ زمیں کا بیضۂ فولاد ہوگیا

105

آیا ادھر سے جب ورقہ جنگ کو ادھر

قبضے میں تیغ سطر تھی اور نقصے کی سپر

اس نامور نے تیغ کے ڈورے سے سربسر

مسطرپئے رقم کیا ورقہ کے جسم پر

تنخواہ زخم دے کے دل افسردہ کردیا

ورقہؔ کا چہرہ فرد برآوردہ کردیا

106

بولی اجل کے ٹکڑے برابر ہوئے ہیں چار

پر بے دلیل عقل کو آیا نہ اعتبار

رگ رگ کو عضو عضو کو اس نے کیا شمار

گن ڈالے موئے کاسۂ سر بھی سب ایک بار

کیا ہاتھ تھا تلا ہوا اس خوش خصال کا

ٹکڑوں میں سر کے فرق نہ تھا ایک بال کا

107

اسحاقؔ نام آ کے ہوا پھر تو رزم خواہ

درہ اسی نے مارا تھا بنت علیؑ کو آہ

تیغ سفید دوش پہ رکھے تھا روسیاہ

غازی نے ہاتھ زیر بغل سے بڑھا کے واہ

یوں نوک تیغ کھینچی کہ غش وہ بھی کر گیا

قبضہ تو ہاتھ میں رہا اور پھل اتر گیا

108

تو طرفہ بے خودی کہ نہ ان پہ ہوا گماں

سمجھا کسی نے پشت پہ کی دزدیٔ نہاں

دیکھا قفا کو تیغ کا پھل تھا وہاں کہاں

پر تیغ ابن مالک اشتر پڑی یہاں

رخ تو ادھر تھا فرق جسد پر ادھر نہ تھا

واں دیکھا پھل نہ تھا جو مڑایاں تو سر نہ تھا

109

آکر دغا طلب ہوا پھر خازن عمر

نام اس کا در ہمی تھا سیہ قلب بدسیر

شکل فلوس تن پہ زرہ آتی تھی نظر

تیغ ان کی مثل سکہ ہوئی اس پہ کار گر

یوں تیغ خوردہ ہو کے زمیں کے تلے گیا

گویا چرا کے دزد اجل اس کو لے گیا

110

لکھا ہے تہ نشیں ہوا افسل مثال دُرد

مردہ نہ پایا ڈھونڈ پھرے گو بزرگ و خرد

تحت الثریٰ کو قہر خدا نے کیا سپرد

تھا درہمی زمیں نے کیا اس کو خورد برد

قارون کے خزانہ میں وہ تیرہ دل گیا

یہ درہمی بھی درہموں میں جاکے مل گیا

111

آئی ندا علیؑ کی کہ شاباش میرے شیر

مختار بولا ایدک اللہ اے دلیر

اب ہم لڑیں گے دم لو وغا کو ہوئی ہے دیر

تم سیر ہوگے خون سے ان کے نہ بندہ سیر

ہاں بڑھ کے کیا ہٹو کہ علیؑ کے غلام ہو

سقے کو بھیج دوں تم اگر تشنہ کام ہو

112

بولا وہ مڑ کے پیاس تو ہے پر نہیں ہراس

سقہ کھڑا ہوا ہے سکینہؑ کا میرے پاس

کہتے ہیں پانی پی لے جو تجھ کو لگی ہے پیاس

آقا کو میرا دھیان ہے آقا کو میرا پاس

پانی کا نام زہر سے اس دم زیاد ہے

وہ کربلا کا پیاسا بھی کچھ تم کو یاد ہے

113

ناگاہ اس طرف سے کماندار اک بڑھا

استاد اپنی فی میں تھا وہ بانی جفا

سوفار لب کو وا کئے دیتے تھے بددعا

چلہ کماں نے باندھا تھا جلد اس کو ہو قضا

بھاگا لگا کے تیر وہ تیر رواں کی شکل

غازی نے بڑھ کے کھینچا گریباں کماں کی شکل

114

تیغ اس نے کی حوالۂ رو جلد کھینچ کر

وہ آنکھ پر پڑی پہ ہوئی کچھ نہ کار گر

ابرو کی تیغ چشم کو جیسے نہ دے نظر

غازی نے زہ کماں کو کیا اور کہا ٹھہر

اک جنبش مژہ میں اسے کور کردیا

پلکوں کی طرح تیروں سے آنکھوں کو بھردیا

115

جب ایک ایک ورنہ ہوا بانی جفا

باہم دہل بجاتے بڑھے سارے اشقیا

طبل خروج یاں بھی بجا پھر تو جا بجا

لشکر سے لشکر آ کے غرض راہ میں ملا

ناحق گروہ ظلم جو شیعوں سے لڑتا تھا

خون گلو انہیں کا گریباں پکڑتا تھا

116

میداں میں فوج لڑتی تھی باہم ادھر ادھر

افسر تھا ان کا روکش مختار نامور

دونوں کا یوں مقابلہ جس طرح خیر و شر

گہہ دور گاہ پاس گہے وقفۂ ہنر

مل کر کبھی سپر سے سپر منہ کی کھا گئی

لڑ کر کبھی سناں سے سناں لڑکھڑا گئی

117

آیا نہ اس کی فوج سے کوئی پئے مدد

اک دو کے بیچ میں نہیں جیسے کوئی عدد

مہر سپر کی تیغ نے مانی نہ کچھ سند

جس طرح خار سے سپر آبلہ ہو رد

بل رشتۂ کمر کی گرہ سے نکل گیا

چھن چھن کے دل کا درد زرہ سے نکل گیا

118

شرما کے وہ تو بھاگ گیا صورت شرر

مختار سوئے فوج پھرا سینہ تان کر

انگشتری کی طرح سے سرہائے اہل شر

نیزے کی پور پور میں آنے لگے نظر

ہر چشم میں سناں پہ چبھوتا تھا خشم میں

پتلی نہ مثل دیدۂ سوزن تھی چشم میں

119

کھینچا بغل میں تنگ زرہ پوش کو اگر

کڑیاں رگوں کی طرح چبھیں تن میں سر بسر

اور سر میں ضرب مشت لگائی جو دوڑ کر

نکلا مثال آبلہ تلوے سے خود سر

اک دم میں خون فوج کے دریارواں ہوئے

کیا یسفک الدما کے معنی عیاں ہوئے

120

شامی کو زور حشر کا نقشہ دکھادیا

رومی کے دل سے رتبۂ قیصر بھلا دیا

مصری کو زہر خنجر ہندی پلا دیا

کوفی کو کاف مرگ کا مرکز بنادیا

اہل حلب تھے شیشہ صفت چور تیغ سے

زنگی کو مثل زنگ کیا دور تیغ سے

121

غازی تھے محو رزم لیے تیغ اور سپر

پیدا ہلال فتح بھی تھا اور شب ظفر

کٹ کر نشان ان کے گرے تھے ادھر ادھر

انبار نیزہ و سپر و تیغ و خود وسر

تھا شور الحذر فلک بے دریغ سے

دل چاک تھا زمیں چکا چاک تیغ سے

122

مختار کہتا تھا کہ بروح ابوتراب

ڈوبے گی جب تلک نہ لہو سے مری رکاب

میں خانماں کروں گا ستمگاروں کا خراب

کی شیعۂ علیؑ کی دعا حق نے مستجاب

خون آ کے اس کے پاؤں پڑا قتل گاہ میں

یعنی کہ بس کوئی نہیں باقی سپاہ میں

123

مختار نامور نے کیا سجدۂ خدا

قاتل جو کچھ رہے تھے اسیران کو کرلیا

شمر وسناں تھے حرملا تھا ابن سعد تھا

کی بزم عیش صبح کو ایوان میں بپا

جلوہ زیادہ ہوگیا بزم مراد کا

دو عیشیں تھیں کہ آیا سر ابن زیاد کا

124

سب قاتلوں کو بزم میں بلوا کے یہ کہا

کیوں آہ فاطمہؑ کا اثر آج تو کھلا

پھر حرملہ کو تو دہ کیا تیر عدل کا

اہل خطا پہ چلنے لگے تیر بے خطا

تلوار سے پیام اجل برملا دیا

پھر بورئیے میں رکھ کے بدن کو جلا دیا

125

ناری ہوا جو خاک تو دی عدل نے ندا

بس آج سرمہ دیدۂ انصاف کو ملا

پر خاک ہونے پر بھی صدا تھی جلا جلا

اور سر کیا عمر کابھی دیداروں نے جدا

دوڑا کے گھوڑے لاش پہ سب حرف زن ہوئے

پامال اس کے حکم سے ستردو تن ہوئے

126

تھرایا شمر دیکھ کے یہ حالت عمر

سب نے گرایا پشت بخاک اس کو کھینچ کر

اک سنگ لا کے چھوڑ دیا اس کے سینے پر

رویا شقی تو بولا یہ مختار خوش سیر

خاموش استغاثہ نہ اے بدنہاد کر

وہ بیٹھنا حسینؑ کے سینے پہ یاد کر

127

زینبؑ خداکے واسطے دیتی رہی اور آہ

بیٹھا رہا تو سینے پہ سید کے بے گناہ

بنت سکینہؑ کرتی رہی وا محمداہؐ

کاٹا کیا تو چین سے احمدؐ کی بوسہ گاہ

انجام ہے یہ خون شہ بے گناہ کا

دیکھا اثر جناب رسالتؐ کی آہ کا

128

یہ کہہ کے سر اتار لیا تن سے ایک بار

پھر تو سناں پہ چلنے لگے برچھیوں کے وار

غل تھا یہ ہے وہ دشمن مولائے بے دیار

بالشت بھر جگہ سے ہوا جس کا نیزہ پار

شہ رگ جو کاٹی تیغ سے اس روسیاہ کی

مردود نے تو آہ کی ہاتف نے واہ کی

129

ہنگامۂ قصاص تھا برپا کہ ناگہاں

مسلم کے اک یتیم کا قاتل ہوا عیاں

تھامے ہوئے تھا مرکب زخمی کی وہ عناں

آنسو تھے دونوں آنکھوں سے اس گھوڑے کے رواں

راکب کی یاد دیکھ کے مرکب کو آگئی

وہ آہ سب نے کی کہ زمیں تھر تھرا گئی

130

ناگاہ ایک بچہ وہاں آیا رشک ماہ

منہ بھولا بھولا رخ پہ سیادت کا عزو جاہ

پر ٹوپی اس کے سر پہ نہ کرتا گلے میں آہ

گیسو پہ خاک ڈالے ہوئے مثل داد خواہ

فاقے سے تھا یہ حال کہ جان اس کی جاتی تھی

آواز استخواں سے لرزنے کی آتی تھی

131

قاتل کے گرد جمع تھے مومن ادھر ادھر

مختار تک نہ جا سکا وہ غیرت قمر

فاقے سے گر کے رونے لگا در پہ بیٹھ کر

مختار بولا کون یہ ہے لاؤ تو خبر

سب نے کہا غریب سا اک لڑکا روتا ہے

جرأت نے دی ندا کہ یہ مسلم کا پوتا ہے

132

محفل میں اس کو لا کے مخاطب ہوئے بشر

سید تمہارا نام کہا اس نے بے پدر

بے کس یتیم مسلم بیکس کا ہوں پسر

مختار بولا سیدنا آئے تم کدھر

رو کر کہا کہ وقت میں یاں تک خلل پڑا

فاقوں کے مارے بھائی میں گھر سے نکل پڑا

133

محفل میں سب نے نوحہ کیا وا محمدؐاہ

یہ حال مصطفےٰ کے یگانوں کا آہ آہ

مختار نے پنہایا اسے کرتا اور کلاہ

وہ بولا میری ماں بھی ہے عریاں خدا گواہ

مختار نے دراہم و خلعت منگادیئے

سید نے چھوٹے ہاتھ دعا کو اٹھا دیئے

134

مختار نے کہا کہ طلب کچھ تو اور کر

بولا دکھا کے باپ کے قاتل کو وہ پسر

بس یہ ہے آرزو کہ ہمیں کاٹیں اس کا سر

اک نیمچہ منگا کے دیا اس نے جلد تر

فاقوں سے گونقیہ بہت وہ یتیم تھا

پر نیمچہ جو مارا تو قاتل دو نیم تھا

135

پھر نیزوں پر علم کئے مختار نے وہ سر

اور کشتیوں میں اس نے دھرا رخت و مال و زر

بولا یہ دوستان علیؑ سے وہ خوش سیر

لے جاؤ ہے یہ ہدیۂ سجاد نامور

کہنا کوئی حسینؑ کا قاتل رہا نہیں

پر بے حسینؑ جینے کا اپنے مزا نہیں

136

زینبؑ کو میری سمت سے یہ دیجیو پیام

اے سیدہ حسینؑ کا تو کب ہے انتقام

پر قاتلوں کو قتل کیا میں نے لاکلام

رخت سیہ اتار اب اے خواہر امام

آئی ندا وہ سوگ نہ حاشا اتارے گی

زینبؑ اتارے گی تو نہ زہراؑ اتارے گی

137

لے کر چلے یہ ہدیہ غلامان بوتراب

مثل نزول رحمت حق پہنچے واں شتاب

اس دم مگر ہوئے در عابد پہ بار یاب

جب چاشت کھا رہے تھے امام فلک جناب

بچوں پہ ہو نہ فاقہ یہ مطلب تمام تھا

ان کا تو ماحضر غم قتل امام تھا

138

فضہ کو مومنوں نے بلایا قریب در

وہ سر بھی کشتیاں بھی اسے سونپیں سربسر

مختار کا پیام کہا ہاتھ باندھ کر

فضہ وہ ہدیے لے گئی زینبؑ کو دی خبر

دن آج تو خدا نے دکھایا مراد کا

بی بی مبارک آیا سرابن زیاد کا

139

حجرے میں اپنے بھائی کے وہ کرتی تھی بکا

آہ و فغاں کے دھیان میں اس نے نہ کچھ سنا

بولی مبارکی کسے دیتی ہے کیا ہوا

اٹھ آیا کیا مزار سے دل بند مصطفیٰ

کیا جیتا قتل گاہ سے اکبرؑ پھرا مرا

کیا گھنٹیوں مدینے میں اصغرؑ پھرا مرا

140

وہ بولی قاتلوں کے سر آئے جدا جدا

زینبؑ پکاری آئے تو آنے دے مجھ کو کیا

ایسے شقی اگر ہوئے بے سرہزارہا

داغ حسینؑ مٹتا ہے دل سے کہیں بھلا

محشر تلک رہے گا یہ ناسور سینے میں

ہے ہے حسینؑ قبر میں زینبؑ مدینے میں

141

مرجانہ کے پسر کا جو عابدؑ نے دیکھا سر

بولے حرم سے قدرت حق پر کرو نظر

اک دن وہ تھا کہ کھاتا تھا کھانا یہ بد سیر

جب شمر لے گیا تھا سر شاہ بحر و بر

بارہ گلے بندھے ہوئے اک ریسمان سے

ہم تم کھڑے تھے چپکے اسیروں کی شان سے

142

اور ایک روز یہ ہے کہ ہم کھاتے ہیں غذا

سر اس کا میرے سامنے یہ ہے دھرا ہوا

سجدے کو گر پڑے حرم شیر کبریا

آئیں گھروں سے عورتیں سن کر یہ ماجرا

ہر سر کی سمت کو یہ حرم کا اشارا تھا

لوٹا تھا اس نے اس نے ہمیں نیزہ مارا تھا

143

دیکھا سکینہؑ نے جو سر شمر بد صفات

گرنے لگی وہ سہم کے صغراؑ کا تھامے ہاتھ

بولی بہن ڈرو نہ ہے ڈرنے کی کون بات

انگلی اٹھا کے آہ پکاری وہ نیک ذات

کیوں کر نہ میں ڈروں کہ بہت صدمے پائے ہیں

صغراؑ ہمیں اسی نے طمانچے لگائے ہیں

144

عابدؑ سے یہ کہا کہ ذرا مجھ کو دو یہ سر

لے جاؤں اس کو قبر رسالتؑ پناہ پر

اور قبر کو ہلاؤں کہ یا سید البشر

حاضر ہے شمر جس نے لیا ہے مرا گہر

پوچھو تو کیا جواب یہ دیتا ہے آپ کو

مارا ہے کس خطا پہ سکینہؑ کے باپ کو

145

ناگہ کیا امام نے ان کشتیوں کو وا

دیکھا سفید کپڑوں کو اور آگئی حیا

رو کر زنان ہاشمیہ سے یہ پھر کہا

سمجھاؤ تم پھوپھی کو کہ بس ہوچکی عزا

حجرے سے باہر آتی ہے نے پانی پیتی ہیں

اعجاز ہے حسینؑ کے غم کا کہ جیتی ہیں

146

کہنا مری طرف سے کہ اے صاحب عزا

شپیرؑ کی عزا کا تمہیں اجر دے خدا

یثرب میں اب تلک کوئی دولہا نہیں بنا

سرمہ زنان ہاشمیہ نے نہیں دیا

یہ تو وہ غم ہے حشر تلک خلق روئے گی

پر اب مدینے والوں کو تکلیف ہوئے گی

147

لائیں جو کشتیاں سوئے زینبؑ وہ نوحہ گر

دیکھا زمیں پہ بیٹھی ہے تنہا جھکائے سر

نام حسینؑ لکھتی ہیں انگلی سے خاک پر

لے کر بلائیں حرفوں کی ملتی ہیں چشم پر

سب گرد بیٹھیں رونے کو منہ ڈھانپ ڈھانپ کر

قبر رسولؑ رہ گئی بس کانپ کانپ کر

148

جب رو چکیں تو کشتیوں کو کھول کر کہا

یہ کپڑے سب ہیں ہدیۂ مختار باوفا

ہم صدقے سوگ اتارئیے اے بنت مرتضی

اب تک کسی نے ہم میں سے شانہ نہیں کیا

ہم کپڑے پہنیں آب بھی وعدہ جو لیجئے

دیں سرمہ ہم بھی آپ اگر سرمہ دیجئے

149

زینب پکاری آہ کہاں جاؤں اے خدا

لوگو مجھے نہ تنگ کرو بہر مصطفی

گھر چھوڑ دوں اگر مرے رونے پہ ہو خفا

جنگل میں جا کے بھائی کی خاطر کروں بکا

مرتے ہوئے بھی سوگ نہ ہرگز بڑھاؤں گی

فردوس میں یہی کفنی پہنے جاؤں گی

150

کیا اک فقط حسینؑ برادر کا سوگ ہے

اے صاحبو بتولؑ کے گھر بھر کا سوگ ہے

اکبر کا سوگ ہے علیؑ اصغرؑ کا سوگ ہے

کس کا اتاروں سوگ بہتر کا سوگ ہے

اک اک برس جو سوگ کی ان کے ہوس کروں

ماتم مسافروں کا بہتر برس کروں

151

شادی تمہیں جہاں میں برابر نصیب ہو

عقد پسر عروسیٔ دختر نصیب ہو

زینب کو ماتم علی اکبرؑ نصیب ہو

یہ بوریائے سوگ برادر نصیب ہو

مرتی ہوئی میں گنج شہیداں پہ جاؤں گی

جن کا ہے سوگ قبر پہ ان کی بڑھاؤں گی

152

اچھا میں سرمہ دیتی ہوں خاک شفا منگاؤ

لو سوگ میں بڑھاتی ہوں بھائی سے پوچھ آؤ

اچھا یہ کپڑے گنج شہیداں پہ لے کے جاؤ

مس کرکے خاک پاک سے زینبؑ کے پاس لاؤ

ہدئیے میں سوگواروں کے یہ پیرہن دیا

حضرت کی لاش کو نہ کسی نے کفن دیا

153

سر ڈھانپ لوں کہو علی اکبرؑ بھی آئیں گے

بدلوں میں کپڑے بھائی گلے سے لگائیں گے

عباسؑ قتل گاہ سے تشریف لائیں گے

پونچھوں میں آنسو منہ علی اصغرؑ دکھائیں گے

مانگو دعا بتولؑ کی جائی کے واسطے

مرجائے روتی روتی یہ بھائی کے واسطے

154

زندہ ہوں صاحبو میں تمہاری نگاہ میں

مردہ ہوں میں فراق شہ کم سپاہ میں

زینب کہاں ہے آل رسالت پناہ میں

وہ وقت عصر ذبح ہوئی قتل گاہ میں

زہراؑ کے رشتہ داروں کی تقدیر پھر گئی

سب کے گلے پہ شمر کی شمشیر پھر گئی

155

گر تم کو اپنے ساتھ رلاؤں گناہگار

رونے کو گھر تمہارے جو آؤں گناہگار

یا اپنے گھر کسی کو بلاؤں گناہگار

مہماں جو شادی بیاہ میں جاؤں گناہگار

شادی کی رسم اٹھ گئی اس خاندان سے

سب تھا حسین تک وہ سدھارے جہان سے

156

پھر ماں کی قبر پر گئی زینبؑ برہنہ پا

بولی پسر کو روتی ہو تنہا لحد میں کیا

بی بی ہمارے رونے سے اب خلق ہے خفا

دو پہلوئے شکستہ میں تھوڑی سی مجھ کو جا

اماں بلا لو قبر میں مجھ بے نصیب کو

ہم آپ مل کے روئیں حسینؑ غریب کو

157

بس اے دبیرؔ �

(2025) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Mirza Salaamat Ali Dabeer. is written by Mirza Salaamat Ali Dabeer. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Mirza Salaamat Ali Dabeer. Free Dowlonad  by Mirza Salaamat Ali Dabeer in PDF.