Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_5b074245159f6ccda87dc2e48cca9dbb, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
در ہجو اکول - میر تقی میر کی شاعری - Darsaal

در ہجو اکول

اک ہے پرخور آشنا بے پیر

سینہ سوراخ جس سے ہے کف گیر

صدمنی دیگ ہے شکم اس کا

نفس اژدہا ہے دم اس کا

آنت شیطان کی ہے اس کی آنت

دانت اس کا ہے ہاتھی کا سا دانت

خستۂ جوع وہ جو آوے نہار

منھ ہے گویا کہ زخم دامن دار

شکل مت پوچھ کھانے کا ہے بلی

منھ ہے چھیپوں سے جیسے روٹی جلی

گال کلچے سے پھر توے سے سیاہ

کاسۂ سر ہے جیسے اوندھا کڑاہ

توند کالی جو کھول جاوے لیٹ

آہنیں ہے تنور اس کا پیٹ

راہ مطبخ میں پاوے ہے جو کبھی

چاٹ جاتا ہے دیگچوں تک بھی

کھینچے باورچیوں کے کیا کیا ناز

کتری گئی اس کے چوتڑوں پر پیاز

کھانا نکلے پر آوے ہے کیسے

چیل ٹوٹے ہے گوشت پر جیسے

وقت کھانے کے ہاتھ سے اس کا

قاب پر نان پنجہ کش گویا

کیا وہ دوپیازہ کھا کے ہو تازہ

اک نوالہ ہے ملا دوپیازہ

گوشت ہانڈی بھرا ہے ختک میں

ہنڈیاں گویا تھیں اس کی خشتک میں

خام طمعی سے اک کرے ہے آہ

دیکھ کر شب کو نان ہالۂ ماہ

نہ ٹلے دیکھ کر وہ قاب پلاؤ

منھ ہے منھ بیٹھا گرچہ کھاوے گھاؤ

کھانے پر جب وہ جی چلاتا ہے

لاٹھی پاٹھی بھی کھائے جاتا ہے

نہیں پہنچے جو کھانا کھانے لگ

ہڈیوں پر لڑے ہے جیسے سگ

بھوکھ کا باولا جو آتا ہے

لوگوں کو کاٹ کاٹ کھاتا ہے

دہوں میں دشمنوں سے بھی وہ لئیم

جائے گھل مل اگر سنے ہے حلیم

آش بغرا پہ مار بھی کھاوے

اس میں گو بوغرا نکل جاوے

کسی مفلس کے گھر جو جاتا ہے

کچھ نہیں خفتیں ہی کھاتا ہے

بھوکھ سے جب کہ غصے میں آوے

بز کوہی کی طرح جھنجھلاوے

ٹھڈیوں کو نگہ سے کھا جاوے

چنے لوہے کے بھی چبا جاوے

دہر کا جلنا آگ سے مانوں

بھوکھ اس کی جلے تو میں جانوں

نکلے بازار میں وہ جب چربوز

سر ہی پھوڑے ہے دیکھ کر تربوز

گھاس پات اور کانس کھاتا ہے

نیشکر پر وہ بانس کھاتا ہے

اس کے آنے کی سن کے بازاری

کرتے ہیں سودوں کی خریداری

کوئی تختہ کرے ہے دوکاں کو

کوئی لاوے بلا گزرباں کو

کنجڑے ڈھانکے ہیں ساگ پات اپنا

تکتے ہیں بنیے داؤ گھات اپنا

کہ مبادا ادھر کو آجاوے

سودے یک سو ہمیں نہ کھا جاوے

اینٹ پتھر بھی کھا گذر جاوے

الغرض پیٹ اپنا بھر جاوے

کیا کیا جینے کے کہیے چکھتا ہے

لیک پیٹ اس کو مارے رکھتا ہے

پیٹ اپنا بڑا جو پاتا ہے

گوہ تک کا بھی جیفہ کھاتا ہے

وہ قضارا ہوا مرا مہمان

کھا گئی اس کی میزبانی جان

گھر میں جو کچھ تھا بیچ منگوایا

کھانا اس کے لیے میں پکوایا

کتنا کھانا بیاں کروں تجھ سے

جس پہ سو میہماں کروں تجھ سے

مجھ سے تھی روزگار سے ان بن

خوب کھانا جو تجھ پہ ہے روشن

چار من گاجروں کا قلیہ تھا

دہ منی دیگ بیچ دلیہ تھا

روٹیاں کس قدر بتاؤں میں

جس کو دوچار سال کھاؤں میں

چاہ کرکے گرا جو وہ بلاع

مدد روح اشعب طماع

کہنے لاگا میں ہوکے بجوالا

کیا ہوا یاں سے قلیے کا پیالہ(۱)

تھی ابھی روٹیوں کی جیٹ کی جیٹ

میں رہا کہتا کھا گیا وہ سمیٹ

کھانا کوئی اور کیا کہے اس کا

سارے منھ دیکھتے رہے اس کا

جب مرے گا وہ بھوکھ کا روگی

روح توشے کی روٹی میں ہوگی

کھانے کی بو جو ناک میں پیٹھے

مر گیا ہووے تو بھی اٹھ بیٹھے

عقل باور اگرچہ کرتی نہیں

وہ مرے بھوکھ اس کی مرتی نہیں

بھوکھے اس کا جو جی نکل جاوے

گور میں بھی کفن نگل جاوے

(1631) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

In Urdu By Famous Poet Mir Taqi Mir. is written by Mir Taqi Mir. Enjoy reading  Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Mir Taqi Mir. Free Dowlonad  by Mir Taqi Mir in PDF.