Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_08becfa5a843c9671b97dd1b4de01e62, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
ابن مریم - کیفی اعظمی کی شاعری - Darsaal

ابن مریم

تم خدا ہو

خدا کے بیٹے ہو

یا فقط امن کے پیمبر ہو

یا کسی کا حسیں تخیل ہو

جو بھی ہو مجھ کو اچھے لگتے ہو

مجھ کو سچے لگتے ہو

اس ستارے میں جس میں صدیوں کے

جھوٹ اور کذب کا اندھیرا ہے

اس ستارے میں جس کو ہر رخ سے

رینگتی سرحدوں نے گھیرا ہے

اس ستارے میں جس کی آبادی

امن بوتی ہے جنگ کاٹتی ہے

رات پیتی ہے نور مکھڑوں کا

صبح سینوں کا خون چاٹتی ہے

تم نہ ہوتے تو جانے کیا ہوتا

تم نہ ہوتے تو اس ستارے میں

دیوتا راکشش غلام امام

پارسا رند راہ بر رہزن

برہمن شیخ پادری، بھکشو

سبھی ہوتے مگر ہمارے لیے

کون چڑھتا خوشی سے سولی پر

جھونپڑوں میں گھرا یہ ویرانہ

مچھلیاں دن میں سوکھتی ہیں جہاں

بلیاں دور بیٹھی رہتی ہیں

اور خارش زدہ سے کچھ کتے

لیٹے رہتے ہیں بے نیازانہ

دم مروڑے کہ کوئی سر کچلے

کاٹنا کیا وہ بھونکتے بھی نہیں

اور جب وہ دہکتا انگارہ

چھن سے ساگر میں ڈوب جاتا ہے

تیرگی اوڑھ لیتی ہے دنیا

کشتیاں کچھ کنارے آتی ہیں

بھنگ گانجا، چرس شراب، افیون

جو بھی لائیں جہاں سے بھی لائیں

دوڑتے ہیں ادھر سے کچھ سایے

اور سب کچھ اتار لاتے ہیں

گاڑی جاتی ہے عدل کی میزان

جس کا حصہ اسی کو ملتا ہے

یہاں خطرہ نہیں خیانت کا

تم یہاں کیوں کھڑے ہو مدت سے

یہ تمہاری تھکی تھکی بھیڑیں

رات جن کو زمیں کے سینے پر

صبح ہوتے انڈیل دیتی ہے

منڈیوں ،دفتروں ملوں کی طرف

ہانک دیتی دھکیل دیتی ہے

راستے میں یہ رک نہیں سکتیں

توڑ کے گھٹنے جھک نہیں سکتیں

ان سے تم کیا توقع رکھتے ہو

بھیڑیا ان کے ساتھ چلتا ہے

تکتے رہتے ہو اس سڑک کی طرف

دفن جن میں کئی کہانیاں ہیں

دفن جن میں کئی جوانیاں ہیں

جس پہ اک ساتھ بھاگی پھرتی ہیں

خالی جیبیں بھی اور تجوریاں بھی

جانے کس کا ہے انتظار تمہیں

مجھ کو دیکھو کہ میں وہی تو ہوں

جس کو کوڑوں کی چھاؤں میں دنیا

بیچتی بھی خریدتی بھی تھی

مجھ کو دیکھو کہ میں وہی تو ہوں

جس کو کھیتوں سے ایسے باندھا تھا

جیسے میں ان کا ایک حصہ تھا

کھیت بکتے تو میں بھی بکتا تھا

مجھ کو دیکھو کہ میں وہی تو ہوں

کچھ مشینیں بنائیں جب میں نے

ان مشینوں کے مالکوں نے مجھے

بے جھجک ان میں ایسے جھونک دیا

جیسے میں کچھ نہیں ہوں ایندھن ہوں

مجھ کو دیکھو کہ میں تھکا ہارا

پھر رہا ہوں جگوں سے آوارہ

تم یہاں سے ہٹو تو آج کی رات

سو رہوں میں اسی چبوترے پر

تم یہاں سے ہٹو خدا کے لیے

جاؤ وہ وتنام کے جنگل

اس کے مصلوب شہر زخمی گاؤں

جن کو انجیل پڑھنے والوں نے

روند ڈالا ہے پھونک ڈالا ہے

جانے کب سے پکارتے ہیں تمہیں

جاؤ اک بار پھر ہمارے لیے

تم کو چڑھنا پڑے گا سولی پر

(1000) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Ibn-e-maryam In Urdu By Famous Poet Kaifi Azmi. Ibn-e-maryam is written by Kaifi Azmi. Enjoy reading Ibn-e-maryam Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Kaifi Azmi. Free Dowlonad Ibn-e-maryam by Kaifi Azmi in PDF.