Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_212eca15264a704b2457a54b5e38f367, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
آرزو کے مسافر - جاوید اختر کی شاعری - Darsaal

آرزو کے مسافر

جانے کس کی تلاش ان کی آنکھوں میں تھی

آرزو کے مسافر

بھٹکتے رہے

جتنا بھی وہ چلے

اتنے ہی بچھ گئے

راہ میں فاصلے

خواب منزل تھے

اور منزلیں خواب تھیں

راستوں سے نکلتے رہے راستے

جانے کس واسطے

آرزو کے مسافر بھٹکتے رہے

جن پہ سب چلتے ہیں

ایسے سب راستے چھوڑ کے

ایک انجان پگڈنڈی کی انگلی تھامے ہوئے

اک ستارے سے

امید باندھے ہوئے سمت کی

ہر گماں کو یقیں مان کے

اپنے دل سے

کوئی دھوکا کھاتے ہوئے جان کے

صحرا صحرا

سمندر کو وہ ڈھونڈتے

کچھ سرابوں کی جانب

رہے گامزن

یوں نہیں تھا

کہ ان کو خبر ہی نہ تھی

یہ سمندر نہیں

لیکن ان کو کہیں

شاید احساس تھا

یہ فریب

ان کو محو سفر رکھے گا

یہ سبب تھا

کہ تھا اور کوئی سبب

جو لئے ان کو پھرتا رہا

منزلوں منزلوں

راستے راستے

جانے کس واسطے

آرزو کے مسافر بھٹکتے رہے

اکثر ایسا ہوا

شہر در شہر

اور بستی بستی

کسی بھی دریچے میں

کوئی چراغ محبت نہ تھا

بے رخی سے بھری

ساری گلیوں میں

سارے مکانوں کے

دروازے یوں بند تھے

جیسے اک سرد

خاموش لہجے میں

وہ کہہ رہے ہوں

مروت کا اور مہربانی کا مسکن

کہیں اور ہوگا

یہاں تو نہیں ہے

یہی ایک منظر سمیٹے تھے

شہروں کے پتھریلے سب راستے

جانے کس واسطے

آرزو کے مسافر بھٹکتے رہے

اور کبھی یوں ہوا

آرزو کے مسافر تھے

جلتی سلگتی ہوئی دھوپ میں

کچھ درختوں نے سائے بچھائے مگر

ان کو ایسا لگا

سائے میں جو سکون

اور آرام ہے

منزلوں تک پہنچنے نہ دے گا انہیں

اور یوں بھی ہوا

مہکی کلیوں نے خوشبو کے پیغام بھیجے انہیں

ان کو ایسا لگا

چند کلیوں پہ کیسے قناعت کریں

ان کو تو ڈھونڈھنا ہے

وہ گلشن کہ جس کو

کسی نے ابھی تک ہے دیکھا نہیں

جانے کیوں تھا انہیں اس کا پورا یقیں

دیر ہو یا سویر ان کو لیکن کہیں

ایسے گلشن کے مل جائیں گے راستے

جانے کس واسطے

آرزو کے مسافر بھٹکتے رہے

دھوپ ڈھلنے لگی

بس ذرا دیر میں رات ہو جائے گی

آرزو کے مسافر جو ہیں

ان کے قدموں تلے

جو بھی اک راہ ہے

وہ بھی شاید اندھیرے میں کھو جائے گی

آرزو کے مسافر بھی

اپنے تھکے ہارے بے جان پیروں پہ

کچھ دیر تک لڑکھڑائیں گے

اور گر کے سو جائیں گے

صرف سناٹا سوچے گا یہ رات بھر

منزلیں تو انہیں جانے کتنی ملیں

یہ مگر

منزلوں کو سمجھتے رہے جانے کیوں راستے

جانے کس واسطے

آرزو کے مسافر بھٹکتے رہے

اور پھر اک سویرے کی اجلی کرن

تیرگی چیر کے

جگمگا دے گی

جب ان گنت رہ گزاروں پہ بکھرے ہوئے

ان کے نقش قدم

عافیت گاہوں میں رہنے والے

یہ حیرت سے مجبور ہو کے کہیں گے

یہ نقش قدم صرف نقش قدم ہی نہیں

یہ تو دریافت ہیں

یہ تو ایجاد ہیں

یہ تو افکار ہیں

یہ تو اشعار ہیں

یہ کوئی رقص ہیں

یہ کوئی راگ ہیں

ان سے ہی تو ہیں آراستہ

ساری تہذیب و تاریخ کے

وقت کے

زندگی کے سبھی راستے

وہ مسافر مگر

جانتے بوجھتے بھی رہے بے خبر

جس کو چھو لیں قدم

وہ تو بس راہ تھی

ان کی منزل دگر تھی

الگ چاہ تھی

جو نہیں مل سکے اس کی تھی آرزو

جو نہیں ہے کہیں اس کی تھی جستجو

شاید اس واسطے

آرزو کے مسافر بھٹکتے رہے

(2473) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Aarzu Ke Musafir In Urdu By Famous Poet Javed Akhtar. Aarzu Ke Musafir is written by Javed Akhtar. Enjoy reading Aarzu Ke Musafir Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Javed Akhtar. Free Dowlonad Aarzu Ke Musafir by Javed Akhtar in PDF.