یہاں تکرار ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے

یہاں تکرار ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے

مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے

تمہیں فرصت ہو دنیا سے تو ہم سے آ کے ملنا

ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے

بہت ممکن ہے کچھ دن میں اسے ہم ترک کر دیں

تمہارا قرب عادت کے سوا کیا رہ گیا ہے

بہت نادم کیا تھا ہم نے اک شیریں سخن کو

سو اب خود پر ندامت کے سوا کیا رہ گیا ہے

ہمارا عشق بھی اب ماند ہے جیسے کہ تم ہو

تو یہ سودا رعایت کے سوا کیا رہ گیا ہے

کہاں لے جائیں اے دل ہم تری وسعت پسندی

کہ اب دنیا میں وسعت کے سوا کیا رہ گیا ہے

سلامت ہے کوئی خواہش نہ کوئی یاد زندہ

بتا اے شام وحشت کے سوا کیا رہ گیا ہے

کسی آہٹ میں آہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں اب

کسی صورت میں صورت کے سوا کیا رہ گیا ہے

بہت لمبا سفر طے ہو چکا ہے ذہن و دل کا

تمہارا غم علامت کے سوا کیا رہ گیا ہے

اذیت تھی مگر لذت بھی کچھ اس سے سوا تھی

اذیت ہے اذیت کے سوا کیا رہ گیا ہے

ہمارے درمیاں ساری ہی باتیں ہو چکی ہیں

سو اب ان کی وضاحت کے سوا کیا رہ گیا ہے

بجا کہتے ہو تم ہونی تو ہو کر ہی رہے گی

تو ہونے کو قیامت کے سوا کیا رہ گیا ہے

شمار و بے شماری کے تردد سے گزر کر

مآل عشق وحدت کے سوا کیا رہ گیا ہے

(726) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Yahan Takrar-e-saat Ke Siwa Kya Rah Gaya Hai In Urdu By Famous Poet Irfan Sattar. Yahan Takrar-e-saat Ke Siwa Kya Rah Gaya Hai is written by Irfan Sattar. Enjoy reading Yahan Takrar-e-saat Ke Siwa Kya Rah Gaya Hai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Irfan Sattar. Free Dowlonad Yahan Takrar-e-saat Ke Siwa Kya Rah Gaya Hai by Irfan Sattar in PDF.