انقلابی عورت

رن بھومی میں لڑتے لڑتے میں نے کتنے سال

اک دن جل میں چھایا دیکھی چٹے ہو گئے بال

پاپڑ جیسی ہوئیں ہڈیاں جلنے لگے ہیں دانت

جگہ جگہ جھریوں سے بھر گئی سارے تن کی کھال

دیکھ کے اپنا حال ہوا پھر اس کو بہت ملال

ارے میں بڑھیا ہو جاؤں گی آیا نہ تھا خیال

اس نے سوچا

گر پھر سے مل جائے جوانی

جس کو لکھتے ہیں دیوانی

اور مستانی

جس میں اس نے انقلاب لانے کی ٹھانی

وہی جوانی

اب کی بار نہیں دوں گی کوئی قربانی

بس لاحول پڑھوں گی اور نہیں دوں گی کوئی قربانی

دل نے کہا

کس سوچ میں ہے اے پاگل بڑھیا

کہاں جوانی

یعنی اس کو گزرے اب تک کافی عرصہ بیت چکا ہے

یہ خیال بھی دیر سے آیا

بس اب گھر جا

بڑھیا نے کب اس کی مانی

حالانکہ اب وہ ہے نانی

ظاہر ہے اب اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی

آسمان پر لیکن تارے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے

رات کے پنچھی بول رہے تھے

اور کہتے تھے

یہ شاید اس کی عادت ہے

یا شاید اس کی فطرت ہے

(1933) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Inqilabi Aurat In Urdu By Famous Poet Fahmida Riaz. Inqilabi Aurat is written by Fahmida Riaz. Enjoy reading Inqilabi Aurat Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Fahmida Riaz. Free Dowlonad Inqilabi Aurat by Fahmida Riaz in PDF.