Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_m4ekq09v1vlg2ckdphn3a94hc6, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
کراچی کی بس - دلاور فگار کی شاعری - Darsaal

کراچی کی بس

بس میں لٹک رہا تھا کوئی ہار کی طرح

کوئی پڑا تھا سایۂ دیوار کی طرح

سہما ہوا تھا کوئی گناہ گار کی طرح

کوئی پھنسا تھا مرغ گرفتار کی طرح

محروم ہو گیا تھا کوئی ایک پاؤں سے

جوتا بدل گیا تھا کسی کا کھڑاؤں سے

کوئی پکارتا تھا مری جیب کٹ گئی

کہتا تھا کوئی میری نئی پینٹ پھٹ گئی

بس میں تمام پردوں کی دیوار ہٹ گئی

ریش سفید زلف سیہ سے لپٹ گئی

ایک اچھا خاصا مرد زنانے میں گھس پڑا

گویا کہ ایک چور خزانے میں گھس پڑا

لیڈیز کی صفوں میں جو چہرے تھے کچھ حسین

ان پر نظر جمائے ہوئے تھے میاں متین

شامل مسافروں میں تھے ہر فن کے ماہرین

کچھ ان میں ناظرین تھے باقی تماش بین

ذوق نظر کی شرط تھی منظر برا نہ تھا

دس پیسے کے ٹکٹ میں یہ پکچر برا نہ تھا

گاڑی میں ایک شور تھا کنڈکٹر آگے چل

کہہ دے خدا کے واسطے ہاں ٹھیک ہے ڈبل

کب تک کھڑا رہے گا سر جادۂ عمل

لڑنے کی آرزو ہے تو باہر ذرا نکل

تجھ پر خدا کی مار ہو اسٹارٹ کر دے بس

دو پیسے اور لے لے جو دولت کی ہے ہوس

کنڈکٹر اب یہ کہتا تھا وہ بس چلائے کیوں

جو بس میں آ گیا ہے کرے ہائے ہائے کیوں

جس کو ہو جاں عزیز مری بس میں آئے کیوں

ایسے ہی گل بدن تھے تو پیسے بچائے کیوں

ٹھانی ہے دل میں اب نہ دبیں گے کسی سے ہم

تنگ آ گئے ہیں روز کی کنڈکٹری سے ہم

کہتا تھا وہ کسی سے بھی کم تر نہیں ہوں میں

یعنی کسی کے باپ کا نوکر نہیں ہوں میں

پبلک سے کیوں ڈروں کوئی لیڈر نہیں ہوں میں

کیوں ریگولر چلوں مہ و اختر نہیں ہوں میں

بس میں کھڑے رہو جو مرے خیر خواہ ہو

دیکھو مجھے جو دور سے عبرت نگاہ ہو

یہ بس جو واقعی تھی کئی سال سے علیل

مشکل سے ایک گھنٹے میں چلتی تھی چار میل

مالک نے بھی یہ سوچ کے دے دی تھی اس کو ڈھیل

اب اس کی زندگی کے ہیں لمحے بہت قلیل

اب تو کسی کلرک سے اچانک یہ جا ملے

کچھ بیمہ کمپنی سے ہمیں بھی صلا ملے

ممکن نہ تھا کہ بس سے ہمارا ملے مزاج

جمہوریت ہے ہم کو پسند اور اسے نراج

مشکل تو یہ ہے بس کا معاون ہے کل سماج

ایسے میں کیا بلند ہو آواز احتجاج

گھبرا کے ہم تو آرٹ کی دنیا میں کھو گئے

جب تک ملیر آیا کئی شعر ہو گئے

(3222) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Karachi Ki Bus In Urdu By Famous Poet Dilawar Figar. Karachi Ki Bus is written by Dilawar Figar. Enjoy reading Karachi Ki Bus Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Dilawar Figar. Free Dowlonad Karachi Ki Bus by Dilawar Figar in PDF.