Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_ebc908df844d6a70da0e05f7623ef94b, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
ضرورتوں کی ہماہمی میں جو راہ چلتے بھی ٹوکتی ہے وہ شاعری ہے - بدر عالم خلش کی شاعری - Darsaal

ضرورتوں کی ہماہمی میں جو راہ چلتے بھی ٹوکتی ہے وہ شاعری ہے

ضرورتوں کی ہماہمی میں جو راہ چلتے بھی ٹوکتی ہے وہ شاعری ہے

میں جس سے آنکھیں چرا رہا ہوں جو میری نیندیں چرا رہی ہے وہ شاعری ہے

جو آگ سینے میں پل رہی ہے مچل رہی ہے بیاں بھی ہو تو عیاں نہ ہوگی

مگر ان آنکھوں کے آبلوں میں جو جل رہی ہے پگھل رہی ہے وہ شاعری ہے

تھا اک تلاطم مئے تخیل کے جام و خم میں تو جلترنگوں پہ چھڑ گئی دھن

جو پردہ دار نشاط غم ہے جو زخمہ کار نواگری ہے وہ شاعری ہے

یہاں تو ہر دن ہے اک سونامی ہے ایک جیسی ہر اک کہانی تو کیا سنو گے

مگر وہ اک خستہ حال کشتی جو مثل لاشہ پڑی ہوئی ہے وہ شاعری ہے

ہے بادلوں کے سیاہ گھوڑوں کے ساتھ ورنہ ہوا کی پرچھائیں کس نے دیکھی

دھلی دھلی دھوپ کے بدن پر جو چھاؤں جیسی سبک روی ہے وہ شاعری ہے

وہی تو کل سرمئی چٹانوں کے درمیاں سے گزر رہی تھی بپھر رہی تھی

وہی ندی اب تھکی تھکی سی جو ریت بن کر بکھر گئی ہے وہ شاعری ہے

گھڑی کی ٹک ٹک دلوں کی دھک دھک سے بات کرتی اگر تنفس مخل نہ ہوتا

تو ایسی شدت کی گو مگو میں جو ہم کلامی کی خامشی ہے وہ شاعری ہے

جو قہقہوں اور قمقموں سے سجی دھجی ہے اسی گلی سے گزر کے دیکھو

اندھیرے زینوں پہ سر بہ زانو جو بیکسی خون تھوکتی ہے وہ شاعری ہے

نہ ہجرتوں کے ہیں داغ باقی نہ اپنی گم گشتگی کا کوئی سراغ باقی

سو اب جو طاری ہے سوگواری جو اپنی فطرت سے ماتمی ہے وہ شاعری ہے

ہے لالہ زار افق سے آگے ابھی جو دھندلا سا اک ستارہ ہے استعارہ

جو ہوگی تیرہ شبی میں روشن وہ کوئی زہرہ نہ مشتری ہے وہ شاعری ہے

گذشتگانی ہے زندگانی نہ یہ ہوا ہے نہ ہے یہ پانی فقط روانی

جو واقعاتی ہے وہ ہے قصہ جو واقعی ہے وہ شاعری

جو حسن منظر ہے کینوس پر وہ رنگریزی نہیں برش کی تو اور کیا ہے

اب اس سے آگے کوئی نظر جس جہان معنی کو ڈھونڈھتی ہے وہ شاعری ہے

یہ شعر گوئی وہ خود فراموش کیفیت ہے جہاں خودی کا گزر نہیں ہے

خودی کی باز آوری سے پہلے جو بے خودی کی خود آگہی ہے وہ شاعری ہے

جو وارداتی صداقتوں کی علامتیں ہیں حدیث دل کی روایتیں ہیں

اسی امانت کو جو ہمیشہ سنبھالتی ہے سنوارتی ہے وہ شاعری ہے

انا کے دم سے ہے ناز‌ ہستی انا کے جلووں کا آئینہ دار ہے ہر اک فن

وہ خود نمائی جو خوش نما ہے مگر جو تھوڑی سی نرگسی ہے وہ شاعری ہے

جو بات نثری ہے نظریاتی ہے جدلیاتی ہے وہ مکمل کبھی نہ ہوگی

مگر جو مجمل ہے اور موزوں ہے اور حتمی اور آخری ہے وہ شاعری ہے

تجارتوں کی سیاستیں اب ادب کی خدمت گزاریوں میں لگی ہوئی ہیں

جو جی رہا ہے جو گا رہا ہے مشاعرہ ہے جو مر رہی ہے وہ شاعری ہے

جو دیدہ ریزی بھی جاں گدازی کے ساتھ ہوگی تو لفظ سارے گہر بنیں گے

خلشؔ یقیناً یہ صرف زور قلم نہیں ہے جو شاعری ہے وہ شاعری ہے

(1452) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Zaruraton Ki Hamahami Mein Jo Rah Chalte Bhi Tokti Hai Wo Shairi Hai In Urdu By Famous Poet Badr-e-Alam Khalish. Zaruraton Ki Hamahami Mein Jo Rah Chalte Bhi Tokti Hai Wo Shairi Hai is written by Badr-e-Alam Khalish. Enjoy reading Zaruraton Ki Hamahami Mein Jo Rah Chalte Bhi Tokti Hai Wo Shairi Hai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Badr-e-Alam Khalish. Free Dowlonad Zaruraton Ki Hamahami Mein Jo Rah Chalte Bhi Tokti Hai Wo Shairi Hai by Badr-e-Alam Khalish in PDF.