رسول کاذب

رسول مصلوب کے دو ہزار برسوں کے بعد یہ واقعہ ہوا

یہ اس زمانے کی بات ہے جب رسول خورشید راس الافلاک پر چمکتا تھا

وہ اک زمستاں کی نیم شب کا سماں تھا

وہ نیم شب اک رقیق چادر نہ جانے کب سے زمیں کے مردار کالبد پر

پڑی ہوئی ہے اور اس کے مسموم روزنوں سے گلے سڑے جسم کا تعفن ابل رہا ہے

شجر حجر دھند کے کفن میں چھپی ہوئی خامشی کے سینے میں چبھ رہے تھے

عناصر وقت منجمد تھے

تمام روحیں فشار مرقد میں مبتلا تھیں

اور ایسے ہنگام میں اک آواز نور افگن

ظہور خورشید کی بشارت سے دشت و در کو جلا رہی تھی

ہزارہا شب گزیدگاں کے ہجوم سے میں نے اس کو دیکھا

وہ خون آدم میں اپنی زندہ خزاں زدہ انگلیاں ڈبوئے کھڑا تھا

ہجوم سے ایک اک گنہ گار کو بلاتا اور اس کے ماتھے پہ کلمۂ صبح لکھ رہا تھا

تمام مردے خزاں زدہ انگلیوں کے چھونے سے جاگتے تھے

گناہ گار نفس تھا میں بھی

امید وار شفا تھا میں بھی

پھر اس زمستاں کی نیم شب میں ہزار لمحات شاق گزرے

اور ایک لمحے نے میرے زخم جگر کو چھو کر کہا

مداوائے غم کی ساعت قریب ہے

سجدہ ریز ہو جا

یہ اس زمانے کی بات ہے جب زمین کے بے شمار مردے لہو کا بپتسمہ لے رہے تھے

لہو کا بپتسمہ لے رہے ہیں

رسول خورشید کی صدا بھی تو مر گئی تھی کہر میں وہ کھو گیا اور

اسی زمستاں کی نیم شب میں خبر ملی ہے

اسی شبستاں نور و نکہت میں بے کفن لاش پر وہ بیٹھا ہوا ہے

اپنے خزاں زدہ ہاتھ سے کسی کے لہو کی تقطیر کر رہا ہے

اور اپنے کاسے کو بھر رہا ہے

خبر ملی ہے،

لہو وہ خورشید کا لہو ہے

(1026) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Rasul-e-kazib In Urdu By Famous Poet Aziz Qaisi. Rasul-e-kazib is written by Aziz Qaisi. Enjoy reading Rasul-e-kazib Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Aziz Qaisi. Free Dowlonad Rasul-e-kazib by Aziz Qaisi in PDF.