Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_d4cbfd3605e4c00eab260f67d03184d5, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
بے یقین بستیاں - علی اکبر ناطق کی شاعری - Darsaal

بے یقین بستیاں

وہ اک مسافر تھا جا چکا ہے

بتا گیا تھا کہ بے یقینوں کی بستیوں میں کبھی نہ رہنا

کبھی نہ رہنا کہ ان پہ اتنے عذاب اتریں گے جن کی گنتی عدد سے باہر

وہ اپنے مردے تمہارے کاندھوں پہ رکھ کے تم کو جدا کریں گے

تم ان جنازوں کو قریہ قریہ لیے پھروگے

فلک بھی جن سے نا آشنا ہے جنہیں زمینیں بھی رد کریں گی

وہ کہہ گیا تھا ہمیشہ ذلت سے دور رہنا

کہ بد نصیبوں کا رزق اول انہیں زمینوں سے پیدا ہوتا ہے

جن زمینوں پہ بھوری گدھوں کی نوچی ہڈی کے ریزے بکھریں

تم اپنی رائے کو استقامت کی آب دینا

جسے پہاڑوں کی خشک سنگیں بلندیوں سے خراج بھیجیں

غلام ذہنوں پہ ایسی لعنت کی رسم رکھنا

جو تیری نسلوں پھر ان کی نسلوں پھر ان کی نسلوں تلک بھی جائے

تمہیں خبر ہو شریف لوگوں کی اونچی گردن لچک سے ایسے ہی بے خبر ہے

سواد غربت میں خیمہ گاہوں کی جیسے گاڑی ہوں خشک چوبیں

کبھی نہ شانے جھکا کے چلنا

کہ پست قامت تمہارے قدموں سے اپنے قدموں کو جوڑ دیں گے

وہی نحوست تمہیں خرابوں کی پاسبانی عطا کرے گی

سراب آنکھوں کے راستوں سے تمہارے گردوں میں ریت پھینکیں گے اور سینے کو کاٹ دیں گے

وہ کہہ گیا تھا یہی وہ علت کے مارے وحشی ہیں جن کی اپنی زباں نہیں ہے

یہ جھاگ اڑاتے ہیں اپنے جبڑوں سے لجلجے کا تو گڑگڑاہٹ کا شور اٹھتا ہے

اور بدبو بکھیرتا ہے

یہی وہ بد بخت بے ہنر اور بے یقیں ہیں کہ جن کی دیت نہ خوں بہا ہے

سو ان کی قربت سے دور رہنا نجات دل کا سبب بنے گا

وہ اک مسافر تھا کہہ گیا ہے

(961) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Be-yaqin Bastiyan In Urdu By Famous Poet Ali Akbar Natiq. Be-yaqin Bastiyan is written by Ali Akbar Natiq. Enjoy reading Be-yaqin Bastiyan Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Ali Akbar Natiq. Free Dowlonad Be-yaqin Bastiyan by Ali Akbar Natiq in PDF.