Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_4570e2e383e2816183ce0bdcc8c26ff3, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
ایک شاعرہ کی شادی پر - اختر شیرانی کی شاعری - Darsaal

ایک شاعرہ کی شادی پر

اے کہ تھا انس تجھے عشق کے افسانوں سے

زندگانی تری آباد تھی رومانوں سے

شعر کی گود میں پلتی تھی جوانی تیری

تیرے شعروں سے ابلتی تھی جوانی تیری

رشک فردوس تھا ہر حسن بھرا خواب ترا

ایک پامال کھلونا تھا یہ مہتاب ترا

نکہت شعر سے مہکی ہوئی رہتی تھی سدا

نشۂ فکر میں بہکی ہوئی رہتی تھی سدا

شرکت غیر سے بیگانہ تھے نغمے تیرے

عصمت حور کا افسانہ تھے نغمے تیرے

شعر کی خلوت رنگیں تھی پری خانہ ترا

مست خوابوں کے جزیروں میں تھا کاشانہ ترا

غائب از چشم تھی جنت کی بہاروں کی طرح

دست انساں سے تھی محفوظ ستاروں کی طرح

صحبت غیر سے گھبراتی تھی تنہائی تری

آئینے سے بھی تو شرماتی تھی تنہائی تری

صبح کی طرح سے دوشیزہ تھی ہستی تیری

بوئے گل کی طرح پاکیزہ تھی ہستی تیری

نغمہ و شعر کے فردوس میں تو رہتی تھی

یکسر الہام و ترنم تھا جو تو کہتی تھی

تیرے اشعار تھے جنت کی بہاروں کے ہجوم

تیرے افکار تھے زرین ستاروں کے ہجوم

درد شعری کے تأثر سے تو مغموم تھی تو

آسماں کا مگر اک غنچۂ معصوم تھی تو

موج کوثر کا چھلکتا ہوا پیمانہ تھی

غیر ہونٹوں کے تصور سے بھی بیگانہ تھی

اب گوارا ہوئی کیوں غیر کی صحبت تجھ کو

کیوں پسند آ گئی نا جنس کی شرکت تجھ کو

اوج تقدیس کو پستی کی ادا بھا گئی کیوں

تیری تنہائی کی جنت پہ خزاں چھا گئی کیوں

شعر و رومان کے وہ خواب کہاں ہیں تیرے

وہ نقوش گل و مہتاب کہاں ہیں تیرے

کون سی طرفہ ادا بھا گئی اس دنیا میں

خلد کو چھوڑ کے کیوں آ گئی اس دنیا میں

ہو گئی عام تو نور مہ تاباں کی طرح

آہ کیوں جل نہ بجھی شمع شبستاں کی طرح

اپنی دوشیزہ بہاروں کو نہ کھونا تھا کبھی

وہ کلی تھی تو جسے پھول نہ ہونا تھا کبھی

عفتیں مٹ کے جوانی کو مٹا جاتی ہیں

پھول کمھلاتے ہیں کلیاں کہیں کمھلاتی ہیں

بلبل مست نوا دشت میں کیوں رہنے لگی

نغمۂ تر کی جگہ مرثیہ کیوں کہنے لگی

ہوس آلودہ ہوئی پاک جوانی تیری

غیر کی رات ہے اب اور کہانی تیری

کس کو معلوم تھا تو اس قدر ارزاں ہوگی

زینت محفل و پامال شبستاں ہوگی

جذب عفت کا میسر تھا جو عرفاں تجھ کو

کیوں نہ مرغوب ہوا شیوۂ جاناں تجھ کو

تیرگی حرص کی حوروں کو بھی بہکا ہی گئی

تیرے بستر پہ بھی آخر کو شکن آ ہی گئی

اب نہیں تجھ میں وہ حوروں کی سی عفت باقی

حور تھی تجھ میں، گئی، رہ گئی عورت باقی

ہاں وہ عورت جسے بچوں کا فسانہ کہئے

بربط نفس کا اک فحش ترانہ کہئے

جس میں ہے زہر عفونت کا وہ پیمانہ کہیں

اک گناہوں کا بھبھکتا ہوا مے خانہ کہیں

نوحہ خواں اپنی جواں موت کا ہونے دے مجھے

مسکرا تو مگر اس حال پہ رونے دے مجھے

(1669) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Ek Shaera Ki Shadi Par In Urdu By Famous Poet Akhtar Shirani. Ek Shaera Ki Shadi Par is written by Akhtar Shirani. Enjoy reading Ek Shaera Ki Shadi Par Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Akhtar Shirani. Free Dowlonad Ek Shaera Ki Shadi Par by Akhtar Shirani in PDF.