چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں

چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں

آرزو میں نے کوئی کی ہی نہیں

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں

فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں

چاہتا تھا بہت سی باتوں کو

مگر افسوس اب وہ جی ہی نہیں

جرأت عرض حال کیا ہوتی

نظر لطف اس نے کی ہی نہیں

اس مصیبت میں دل سے کیا کہتا

کوئی ایسی مثال تھی ہی نہیں

آپ کیا جانیں قدر یا اللہ

جب مصیبت کوئی پڑی ہی نہیں

شرک چھوڑا تو سب نے چھوڑ دیا

میری کوئی سوسائٹی ہی نہیں

پوچھا اکبرؔ ہے آدمی کیسا

ہنس کے بولے وہ آدمی ہی نہیں

(1105) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

CharKH Se Kuchh Umid Thi Hi Nahin In Urdu By Famous Poet Akbar Allahabadi. CharKH Se Kuchh Umid Thi Hi Nahin is written by Akbar Allahabadi. Enjoy reading CharKH Se Kuchh Umid Thi Hi Nahin Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Akbar Allahabadi. Free Dowlonad CharKH Se Kuchh Umid Thi Hi Nahin by Akbar Allahabadi in PDF.