دراصل یہ نظم لکھی ہی نہیں گئی
بعض باتیں بہت معمولی ہوتی ہیں
مگر ان کے دانت پورے جیون کو کاٹتے رہتے ہیں
یہ ایک نظم کے درمیان ہوا آغاز تھا جو اختتام تک پہنچنے سے پہلے ہی پوری نظم سمیت گم ہو گیا
شاید بعض بہت معمولی باتوں کے دانت ایک پوری نظم کے جیون کو مسلسل کاٹتے رہنے کے لیے ہوں گے
سو تمہاری نظم گم ہو گئی ہمیشؔ
سو تم بھی گم ہو جاؤ ہمیشؔ
ان دیکھی تہہ داریوں میں گم ہو جاؤ ہمیشؔ
اس سے پہلے کہ کسی آواز کے دانت عدم تاریک میں کوند جائیں
کیوں نہ تم ابھی یہ جان لو کہ
معمولی سے معمولی بات اپنے حصہ کی آواز سے گزر گئے نہ جاننے والے کے لئے تو بازگشت بن جاتی ہے
مگر جاننے والے کے لئے موت کے دانت
ورنہ یہ اسی کا تو سوندریہ جہاں گزیدہ ہے کہ
دھوپ اتنی دھواں دھار گر رہی ہے کہ بجلی کے کھمبے اور چلے گئے ہیں
اب کبھی کچھ نہیں سنائی دے سکے گا
پہلے بھی کیا سنائی دیا ہوگا
کہ ایک ابھاگی سماعت کو ایک گھنٹے کی نشہ گمان ضرب نادیدہ
یا تین منٹ کی سکوت خوش گوار ٹھوکر پر رکھ لیا ہوگا
اور کہا گیا کہ اب انتظار نہ کرنا کہ اب بہت ہو چکا کہ نہیں چاہئے کہ جو کبھی چاہئے تھا
سو جس راہ پر آج تم اداس مقسوم بیٹھے ہو
اس سے تمہارے حصہ کی کوئی من چاہی راہ تو کے نہیں ملتی
وہ کوئی اور زمانہ رہا ہوگا
ورنہ کہاں کی چمبل ندی اور کہاں اس کا پانی
اور کبھی کنارے سے ڈالا ہوا پرانا تانبے کا پیسہ اس کی تہہ میں پڑا نظر آ رہا تھا
تو وہاں اب تک کتنی ہی حاسد سوتیلی پرچھائیوں کا نزول ہوا ہوگا
تمہارے آنسوؤں کے سنکن کو ان دیکھی مٹی میں دبا کے اوپر سے پاٹ دینے کے لئے
سو گم ہو جاؤ ہمیشؔ
اس کی نظر سے اور اپنی نظر سے بھی
ایسا تو کبھی نہیں ہوا ہوگا
کہ اگر کسی نے خدا کو نہیں دیکھا
تو کیا خدا نے بھی کسی کو نہیں دیکھا
کہ اگر کوئی خدا سے نہیں ملا
تو کیا خدا بھی کسی سے نہیں ملا
پھر وہ کون ہے جو اپنے جذب کے حصہ کی آسمانی کنگھی مول لے کے اپنے سر کے بیچ
مانگ کاڑھتا ہے
اس سمے جب اس کے غم دیدہ حصہ کی دنیا میں اس کے لطف نادیدہ کی بارش ہو رہی ہوتی ہے
یا شاید کسی جہان آسودہ کی امید میں کسی جہان نا آسودہ سے گزرنا پڑتا ہے
تب واپس لے جانے کے لئے آیتوں سے شکر کے ایک دانے کو سمیٹ کے
اپنی جگہ لے جانے والی چیونٹیوں کے جماؤ سے پرانی یادوں میں محفوظ رکھی
ہاتھیوں کی قطار سے اعتبار عدم میں ضم ہونا پڑتا ہے
بھول جاؤ کہ تم اس کے لئے سیاہ گلوبند میں چمکتے تین نگوں میں سے کسی ایک نگ میں بھی شامل ہو سکو گے
(1323) ووٹ وصول ہوئے
Dar-asl Ye Nazm Likhi Hi Nahin Gai In Urdu By Famous Poet Ahmad Hamesh. Dar-asl Ye Nazm Likhi Hi Nahin Gai is written by Ahmad Hamesh. Enjoy reading Dar-asl Ye Nazm Likhi Hi Nahin Gai Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Ahmad Hamesh. Free Dowlonad Dar-asl Ye Nazm Likhi Hi Nahin Gai by Ahmad Hamesh in PDF.
Sad Poetry in Urdu, 2 Lines Poetry in Urdu, Ahmad Faraz Poetry in Urdu, Sms Poetry in Urdu, Love Poetry in Urdu, Rahat Indori Poetry, Wasi Shah Poetry in Urdu, Faiz Ahmad Faiz Poetry, Anwar Masood Poetry Funny, Funnu Poetry in Urdu, Ghazal in Urdu, Romantic Poetry in Urdu, Poetry in Urdu for Friends