جنگل کے پاس ایک عورت

نیند کے پاس ایک رات ہے

میرے پاس ایک کہانی ہے

جنگل کے پاس ایک عورت تھی

عورت بچہ پیدا کرنے کے درد سے مر رہی تھی

ایک شکاری وہاں پہنچ گیا

اور بچے کی آنکھوں کے عوض

عورت کی مدد کرنے پر آمادہ ہو گیا

عورت نے جڑواں بچے جنے

شکاری کے ہاتھ

آنکھوں کی دو جوڑیاں آئیں

اس وقت سکے ایجاد نہیں ہوئے تھے

ایک جوڑی آنکھ کے بدلے

زندگی بھر کا سامان خریدا جا سکتا تھا

جو لوگ دوسروں کی آنکھیں حاصل نہیں کر سکتے

اپنی آنکھوں کا سودا کر لیتے

ہر سودے کی طرح

بیچتے وقت

آنکھوں کی صرف آدھی قیمت حاصل ہوتی تھی

آنکھیں بیچنے والے

صرف آدھی زندگی خرید سکتے تھے

عورت نے شکاری سے جدا ہو کر

اپنے بچوں کو جنگل میں چھوڑ دیا

جیسا کہ اس نے اپنے شوہر کو

سمندر میں چھوڑ دیا تھا

بچے بھیڑیوں میں پل کر بڑے ہوئے

ان میں سے ہر ایک

دوسرے کو

اپنی ماں کی کوکھ کا غاصب

اور اپنی آنکھوں کے سودے کا باعث سمجھنے لگا

جب

بیلوں میں پاؤں ٹوٹنے کی بیماری پھیل جانے کی وجہ سے

اندھے غلاموں کی مانگ بڑھ گئی

ایک بردہ فروش

انہیں بھیڑیوں کی غول سے چرا لے گیا

زمین میں جتے ہوئے اندھے بھائی

ہل لے کر اتنی مخالف سمت میں چلتے کہ

ان کے آقا کو

خدا سے درخواست کر کے

ایک کھڑکھڑانے والا سانپ ان کے پیچھے لگانا پڑا

میں بہت دنوں پہلے

اس شہر کا محاصرہ کرنے آیا تھا

میرے پرچم پر رہنے والا عقاب اڑ گیا

میرے سپاہیوں نے

اپنی تلواریں ٹکسالوں میں بیچ دیں

گھوڑے نے اپنی کھال

مشکیزہ بنانے والے کو ہدیہ کر دی

شہر کی دیواروں میں

شگاف کہاں ہے

یہ اس کے چرواہوں کو بھی معلوم ہے

اور ان کی بھیڑوں کو بھی

مگر یہ جنگ

غداروں اور چو پاؤں کو بھی خرید کر نہیں جیتنا چاہتا

میں سمندروں کو کشتیوں سے

اور تلوار کو تلوار سے ناپتا ہوں

میں غلام عورت کا

غلام مرد سے پیدا ہوئی اولاد نہیں

جو ایک غلام شاخ سے کمان

اور دوسرے غلام شاخ سے تیر بناتا ہے

میں اس کھڑکھڑانے والے سانپ کو کچل دوں گا

اور جڑواں بھائیوں کے کندھے سے جوتا اتار کر

اسے گہری کھائی میں پھینک دوں گا

میں انہیں لے کر جنگل میں نکل آؤں گا

اور اس شکاری کو تلاش کروں گا

جو بچہ پیدا کرنے کے عوض اس کی آنکھیں طلب کرتا ہے

اور اس ماں کو تلاش کروں گا

جو بغیر آنکھوں کے بچے کو چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے

ایک دن بیچی ہوئی آنکھیں

شکاری سے سودا کردہ شخص کو پہچان لیں گی

اور اندھے بچے

اس آدمی سے آہنی آنکھیں چھین کر

اپنے شکاری کو ڈھونڈھ نکالیں گے

اور شکاری سے اس عورت کا پتہ پوچھ کر رہیں گے

جو انہیں جنگل میں چھوڑ کر چلی گئی تھی

چاہے وہ عورت میری بیوی ہی کیوں نہ ہو

(1511) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Jangal Ke Pas Ek Aurat In Urdu By Famous Poet Afzal Ahmad Syed. Jangal Ke Pas Ek Aurat is written by Afzal Ahmad Syed. Enjoy reading Jangal Ke Pas Ek Aurat Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Afzal Ahmad Syed. Free Dowlonad Jangal Ke Pas Ek Aurat by Afzal Ahmad Syed in PDF.