چل دیا وہ دیکھ کر پہلو مری تقصیر کا

چل دیا وہ دیکھ کر پہلو مری تقصیر کا

دوسرا رخ اس نے دیکھا ہی نہیں تصویر کا

باقی سارے خط پہ دھبے آنسوؤں کے رہ گئے

ایک ہی جملہ پڑھا میں نے تری تحریر کا

تو نے کیسے لفظ ہونٹوں کی کماں میں کس لیے

اتنا گہرا گھاؤ تو ہوتا نہیں ہے تیر کا

عذر باقی چال میں ہے قید گو باقی نہیں

پاؤں عادی ہو گیا ہے اس قدر زنجیر کا

آ گئی کشتی بھٹک کر آب سے سوئے سراب

بھر گیا ریگ رواں سے جال ماہی گیر کا

بات چھوٹی تو نہیں تجھ سے بچھڑنے کی ہے بات

فیصلہ تسلیم کر لوں کس طرح تقدیر کا

یار لوگوں نے اسے کتبہ بنا ڈالا عدیمؔ

آخری پتھر بچا جو عمر کی تعمیر کا

دوستوں سے بھی تعلق بن گیا ہے وہ عدیمؔ

جو تعلق ہے کسی شمشیر سے شمشیر کا

زہر کی آنکھوں میں روشن صورتیں دو ہیں عدیمؔ

شکل اک سقراط کی اور ایک چہرہ ہیر کا

(1115) ووٹ وصول ہوئے

Your Thoughts and Comments

Chal Diya Wo Dekh Kar Pahlu Meri Taqsir Ka In Urdu By Famous Poet Adeem Hashmi. Chal Diya Wo Dekh Kar Pahlu Meri Taqsir Ka is written by Adeem Hashmi. Enjoy reading Chal Diya Wo Dekh Kar Pahlu Meri Taqsir Ka Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Adeem Hashmi. Free Dowlonad Chal Diya Wo Dekh Kar Pahlu Meri Taqsir Ka by Adeem Hashmi in PDF.