Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_9dc3edee52ced084b82994b8a7a69d5d, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
چپ - عبد الرشید کی شاعری - Darsaal

چپ

رات کی کالی بارش نے

چہروں کی وردی

کیچڑ سے بھر دی ہے

میرے سینے کے پنجرے میں

خون کا گردش کرنے والا لٹو

نفرت کے پودوں کے اوپر

گھوم رہا ہے

تم نے ایسے کانٹے

میری شریانوں میں بوئے ہیں

ایسی دوپہروں کی زردی

میرے گالوں پہ لیپی ہے

کہ میں بستر کی شکنوں میں

اپنی آنکھیں بو کر روتا ہوں

پہلی بار جب غم کی پتلی قاش کو

چہرے سے نوچا تھا

جب غربت کے اوراق

ہوا میں اڑتے تھے

جب خالی معدے کی تصویر بنا کر

اس میں چیزیں رکھتا تھا

پھٹے ہوئے کپڑوں میں جب

تصویر چھپا کر رکھتا تھا

میری شہوت

کنوار پنے کی دہلیزوں پر

اپنا خطبہ لکھتی تھی

بیس برس ان گلیوں کی دیواروں سے

ٹکرا ٹکرا کر

میرے کندھے ریت کے پشتے بن کر

ڈھیتے جاتے ہیں

میں جو تیری رانوں کے جنگل میں

کالے پھول کو توڑنے نکلا تھا

اب دیکھ رہا ہوں

دل کی کوری مٹی میں

تیرے جسم کی پتلی شاخیں اگی ہوئی تھیں

اور اک آوارہ سناٹا

چھتوں پر بھاری قدموں سے

بڑی آہستگی کے ساتھ چلتا ہے

تو وہ چپکے سے میرے پاس آتی ہے

اور اپنے دھیمے لہجے میں

وہ ساری داستانیں کہہ سناتی ہے

جنہیں سن کر میں دھیمی آنچ پر

پہروں سلگتا ہوں

کسی گرجے کے ویراں لان میں

جب جنوری

اپنے سنہری گیسوؤں کو کھول کر

کوئی پرانا گیت گاتی ہے

تو وہ اک ان چھوئی نن کی طرح

پتھر کے بینچوں پر

مرے کاندھے پر سر رکھے

مرے چہرے پہ اپنی انگلیوں میں

کبھی جب شام روتی ہے

سیہ کافی کے پیالوں سے

لپکتی بھاپ میں

پھر آندھی کی آمد سے ایسی گرد ہوئی

ایسا حبس مری سانسوں میں پھیلا

تیرے جسم کی کشتی میں

میں اپنے کپڑے بھول آیا

پر تم نے آدھی رات کو ایسی چٹکی لی

نیند کی ڈھولک

گھٹنوں کی ضربوں سے چکناچور ہوئی

اب منہ سے شیرہ بہتا ہے

ان زخموں کا

جن کے ٹانکے اندر ہی اندر ٹوٹے ہیں

بجلی کی تاروں کے اوپر

کوے قطار میں بیٹھے ہیں

بارش کے پانی میں جن کے

عسکری بازو ہلتے ہیں

رانوں کی یہ نیلی وریدیں

جن میں دعا کا نقشی کوزہ

الٹ گیا ہے

میں نے ان گلیوں میں

اپنے مرنے کی افواہ سنی ہے

خوش الحان موذن کی

آواز سے چڑیاں اڑتی ہیں

اے رستوں کی رادھا

تیرے وصل کی خاطر

جسم کے نجی حصے دھو کر

لوٹ کے پھر میں آیا ہوں

میرے بدن پہ

صبر کے نیلے دھبے ہیں

پشت پہ

ہم جنسی کے آنسو ہیں

نیم کے پیڑ کے ڈنٹھل ہیں

جو میری کمر میں بوئے ہیں

کچنار کے سوکھے پتے ہیں

میں جن کو پکا کر کھاتا ہوں

چار دہائیوں سے میں گندے

پرنالے کے نیچے استادہ ہوں

سمجھ رہا ہوں

چپ کی بارش کا یہ میلا پانی ہے

یہ پانی جو سینے کے بالوں سے گر کر

فوطوں کو تر کرتا ہے

ڈول میں بھر کر

شور آلود زمیں پر

گرتا جاتا ہے

میری چپ نے

رستوں کو پامال کیا ہے

میری چپ نے سانپ کی کنڈلی میں سے

زہر نچوڑا ہے

مجھ کو اپنے کندھوں کے

زیریں حصوں کے حملے سے

بے قوت کر ڈالا ہے

(1372) ووٹ وصول ہوئے

عبد الرشید کی شاعری

Your Thoughts and Comments

Chup In Urdu By Famous Poet Abdur Rasheed. Chup is written by Abdur Rasheed. Enjoy reading Chup Poem on Inspiration for Students, Youth, Girls and Boys by Abdur Rasheed. Free Dowlonad Chup by Abdur Rasheed in PDF.