Hadith no 3074 Of Sunan Ibn Majah Chapter Hajj O Umrah Ke Mutaliq Ehkaam O Masail (Problems and Commands About Pilgrimage and Umrah)
Read Sunan Ibn Majah Hadith No 3074 - Hadith No 3074 is from Problems And Commands About Pilgrimage And Umrah , Hajj O Umrah Ke Mutaliq Ehkaam O Masail Chapter in the Sunan Ibn Majah Hadees Book, which is written by Imam Ibn Majah. Hadith # 3074 of Imam Ibn Majah covers the topic of Problems And Commands About Pilgrimage And Umrah briefly in Sunan Ibn Majah. You can read Hadith No 3074 from Problems And Commands About Pilgrimage And Umrah in Urdu, Arabic and English Text with pdf download.
سنن ابن ماجہ - حدیث نمبر 3074
Hadith No | 3074 |
---|---|
Book Name | Sunan Ibn Majah |
Book Writer | Imam Ibn Majah |
Writer Death | 275 ھ |
Chapter Name | Problems And Commands About Pilgrimage And Umrah |
Roman Name | Hajj O Umrah Ke Mutaliq Ehkaam O Masail |
Arabic Name | المناسك |
Urdu Name | حج و عمرہ کے احکام و مسائل |
Urdu Translation
´جعفر الصادق اپنے والد محمد الباقر سے روایت کرتے ہیں کہ` ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس گئے، جب ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آنے والوں کے بارے میں پوچھا کہ کون لوگ ہیں، یہاں تک کہ آخر میں مجھ سے پوچھا، میں نے کہا: میں محمد بن علی بن حسین ہوں، تو انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سر کی طرف بڑھایا، اور میرے کرتے کے اوپر کی گھنڈی کھولی پھر نیچے کی کھولی پھر اپنی ہتھیلی میری دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھی، میں ان دنوں نوجوان لڑکا تھا، اور کہا: تمہیں خوش آمدید، تم جو چاہو پوچھو، میں نے ان سے (کچھ باتیں) پوچھیں، وہ نابینا تھے ۱؎ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، وہ ایک بنی ہوئی چادر جسے جسم پر لپیٹے ہوئے تھے اوڑھ کر کھڑے ہوئے، جب اس کے دونوں کنارے اپنے کندھوں پر ڈالتے تو اس کے دونوں کنارے ان کی جانب واپس آ جاتے (کیونکہ چادر چھوٹی تھی) اور ان کی بڑی چادر ان کے پاس ہی میز پر رکھی ہوئی تھی، انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر میں نے ان سے کہا: آپ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا حال بتائیے، تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور نو (۹) کی گرہ بنائی (یعنی خنصر، بنصر اور وسطی کا سرا ہتھیلی سے لگا لیا) اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو سال تک (مدینہ میں) ٹھہرے رہے، آپ نے حج نہیں کیا، پھر (ہجرت) کے دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا کہ اس سال آپ حج کو جائیں گے، تو مدینہ میں (اطراف سے) بہت سے لوگ (آپ کے ساتھ حج میں شریک ہونے کے لیے) آ گئے، سب کی یہ خواہش تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں، اور جو کام آپ کریں وہی وہ بھی کریں، خیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے، ہم ذو الحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے یہاں محمد بن ابی بکر کی ولادت ہوئی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوایا کہ میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غسل کر لو اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ لو، اور احرام کی نیت کر لو“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ذوالحلیفہ) مسجد میں نماز ادا کی، پھر قصواء نامی اونٹنی پر سوار ہو گئے، یہاں تک کہ جب وہ آپ کو لے کر مقام بیداء میں سیدھی کھڑی ہوئی تو جہاں تک میری نگاہ گئی میں نے آپ کے سامنے سوار اور پاپیادہ لوگوں کو ہی دیکھا، اور دائیں بائیں اور پیچھے بھی ایسے ہی لوگ نظر آ رہے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تھے ۲؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اترتا تھا، آپ اس کے معانی کو سمجھتے تھے، آپ جو کام کرتے تھے ہم بھی وہی کرتے تھے، آپ نے توحید پر مشتمل تلبیہ پکارا «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» ”حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، حمد و ثناء، نعمتیں اور فرماں روائی تیری ہی ہے، تیرا ان میں کوئی شریک نہیں“ تو لوگوں نے بھی انہیں الفاظ میں تلبیہ پکارا جن میں آپ پکار رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے کسی الفاظ کی تبدیلی نہیں فرمائی ۳؎، آپ یہی تلبیہ پکارتے رہے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، ہم عمرہ جانتے بھی نہ تھے ۴؎ (یعنی اس کا سرے سے کوئی خیال ہی نہیں تھا) یہاں تک کہ جب ہم خانہ کعبہ کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا، اور طواف میں تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار پھیروں میں عام چال چلے، پھر مقام ابراہیم کے پاس جا کر کھڑے ہوئے، اور آیت کریمہ: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» ”تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو“ پڑھی ۵؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم کو اپنے اور خانہ کعبہ کے درمیان کیا۔ جعفر کہتے ہیں کہ میرے والد کہتے تھے اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے: آپ (طواف کی) دونوں رکعتوں میں: «قل يا أيها الكافرون»، «قل هو الله أحد» پڑھ رہے تھے ۶؎۔ پھر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) لوٹ کر خانہ کعبہ کے پاس آئے، اور حجر اسود کا استلام کیا، پھر باب صفا سے صفا پہاڑی کی طرف نکلے یہاں تک کہ جب صفا کے قریب ہوئے تو: «إن الصفا والمروة من شعائر الله» ”صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں“ پڑھی اور فرمایا: ہم بھی وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سعی) صفا سے شروع کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل صفا چڑھے یہاں تک کہ خانہ کعبہ نظر آنے لگا تو «الله أكبر لا إله إلا الله اور الحمد لله» پڑھا، اور فرمایا: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير لا إله إلا الله وحده لا شريك له أنجز وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده» ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی ساجھی نہیں، ساری بادشاہت اسی کے لیے ہے، اور تمام قسم کی تعریفیں اسی کے لیے سزاوار ہیں، وہی زندگی عطا کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، اور وہی ہر چیز پر قادر ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی، اور تنہا بہت سی جماعتوں کو شکست دی“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے درمیان دعا فرمائی اور یہ کلمات تین بار دہرائے، پھر آپ (صفا سے) اتر کر مروہ کی طرف چلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں وادی کے نشیب میں اترنے لگے تو آپ نے رمل کیا (یعنی مونڈھے ہلاتے ہوئے دوڑ کر چلے)، پھر جب چڑھائی پر پہنچے تو عام چال چل کر مروہ تک آئے، اور مروہ پر بھی آپ نے ویسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا تھا، پھر جب آپ کا آخری پھیرا مروہ پر ختم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے وہ بات پہلے معلوم ہو گئی ہوتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو میں ہدی اپنے ساتھ نہ لاتا، اور حج کو عمرہ میں بدل دیتا، لہٰذا تم میں سے جس آدمی کے ساتھ ہدی (کے جانور) نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے، اور اس کو عمرہ میں تبدیل کر لے“، یہ سن کر لوگوں نے احرام کھول دیا، اور بال کتروا لیے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی کے جانور تھے۔ پھر سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا: اللہ کے رسول! کیا یہ حکم ہمارے لیے صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے؟ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیں اور دو بار فرمایا: ”عمرہ حج میں اسی طرح داخل ہو گیا ہے“، اور فرمایا: ”صرف اس سال کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے“۔ علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدی کے اونٹ (یمن) سے لے کر آئے تو انہوں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ان لوگوں میں سے پایا جنہوں نے احرام کھول ڈالا تھا، وہ رنگین کپڑا پہنے ہوئے تھیں، اور سرمہ لگا رکھا تھا، تو اس پر انہوں نے ناگواری کا اظہار کیا، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا بولیں: میرے والد نے مجھے اس کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ (اپنے ایام خلافت میں) عراق میں فرما رہے تھے کہ میں ان کاموں سے جن کو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کر رکھا تھا، غصہ میں بھرا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس چیز کے متعلق پوچھنے کے لیے آیا جو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کے متعلق بتائی تھی، اور جس پر میں نے ناگواری کا اظہار کیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، وہ سچ کہتی ہے، ہاں، وہ سچ کہتی ہے“، اور ”جب تم نے حج کی نیت کی تھی تو تم نے کیا کہا تھا“؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے یوں کہا تھا: اے اللہ! میں وہی تلبیہ پکارتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے ساتھ تو ہدی ہے تو اب تم حلال نہ ہو“۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو قربانی کے وہ اونٹ جو علی رضی اللہ عنہ یمن سے لے کر آئے تھے، اور وہ اونٹ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے لے کر آئے تھے کل سو تھے، پھر سارے لوگ حلال ہو گئے، اور انہوں نے بال کتروا لیے سوائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی کے جانور تھے۔ پھر جب یوم الترویہ (ذی الحجہ کا آٹھواں دن) آیا تو حج کا تلبیہ پکار کر لوگ منیٰ کی طرف چلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوار ہوئے، اور منیٰ پہنچ کر وہاں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا کیں، (نوویں ذی الحجہ کو فجر کے بعد) تھوڑی دیر رکے رہے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، اور بال کے خیمے کے متعلق حکم دیا کہ اسے نمرہ میں لگایا جائے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور قریش کو اس میں شک نہیں تھا کہ آپ مشعر حرام ۷؎ یا مزدلفہ کے پاس ٹھہریں گے، جیسا کہ قریش جاہلیت میں کیا کرتے تھے ۸؎، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پار کر کے عرفات میں جا پہنچے، دیکھا تو خیمہ نمرہ میں لگا ہوا ہے، آپ وہیں اتر پڑے، جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے قصواء (اونٹنی) پر کجاوہ کسے جانے کا حکم دیا، آپ اس پر سوار ہو کر وادی کے نشیب میں آئے، اور خطبہ دیا، اس میں فرمایا: ”تمہارے خون، تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن تمہارے اس مہینے اور تمہارے اس شہر میں، سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے ان دونوں پاؤں کے تلے رکھ کر روند دی گئی، اور جاہلیت کے سارے خون معاف کر دئیے گئے، اور سب سے پہلا خون جس کو میں معاف کرتا ہوں ربیعہ بن حارث کا خون ہے، وہ بنی سعد میں دودھ پی رہے تھے کہ شیر خوارگی ہی کی حالت میں ہذیل نے انہیں قتل کر دیا تھا، اور جاہلیت کے سارے سود بھی معاف کر دئیے گئے اور اپنے سودوں میں سے پہلا سود جس کو میں معاف کرتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے، وہ سب معاف ہے۔ اور عورتوں کے سلسلہ میں تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو، تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کے امان اور عہد سے اپنے عقد میں لیا ہے، اور تم نے ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلام سے حلال کیا ہے، لہٰذا تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر اس شخص کو روندنے نہ دیں جن کو تم برا جانتے ہو ۹؎، اگر وہ ایسا کریں تو انہیں مارو لیکن ایسی سخت مار نہیں کہ جس سے ہڈی پسلی ٹوٹ جائے، ان کا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ تم ان کو دستور و عرف کے مطابق روٹی اور کپڑا دو، میں تم میں وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں جس کو اگر تم مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو گمراہ نہ ہو گے، اور وہ اللہ کی کتاب (قرآن) ہے، اور تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو بتاؤ، تم کیا کہو گے؟ لوگوں نے کہا: ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا حکم پہنچا دیا اور ذمہ داری ادا کر دی! اور آپ نے ہماری خیر خواہی کی، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت والی انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کیا پھر آپ اسے لوگوں کی طرف جھکا رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے: ”اے اللہ! گواہ رہ، اے اللہ! گواہ رہ“، تین بار آپ نے یہ کلمات دہرائے۔ اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر تکبیر کہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھائی، پھر تکبیر کہی تو عصر پڑھائی اور ان دونوں کے درمیان آپ نے کوئی اور نماز نہیں پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور اس مقام پر آئے جہاں عرفات میں وقوف کرتے ہیں، اور اپنی اونٹنی کا پیٹ جبل رحمت کی طرف کیا اور جبل المشاۃ کو اپنے سامنے کیا، اور قبلہ رخ کھڑے ہوئے، اور سورج ڈوبنے تک مسلسل کھڑے رہے یہاں تک کہ تھوڑی زردی بھی جاتی رہی، جب سورج ڈوب گیا تو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا، پھر آپ عرفات سے چلے، اور قصواء کی نکیل کو کھینچے رکھا یہاں تک کہ اس کا سر کجاوے کی پچھلی لکڑی سے لگ جایا کرتا تھا، اور اپنے داہنے ہاتھ کے اشارے سے فرما رہے تھے: ”لوگو! اطمینان اور آہستگی سے چلو“، جب آپ کسی ریت کے ٹیلے پر آتے تو قصواء کی نکیل تھوڑی ڈھیلی کر دیتے یہاں تک کہ وہ چڑھ جاتی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ تشریف لائے، اور وہاں ایک اذان اور دو اقامت سے مغرب اور عشاء پڑھی اور ان کے درمیان کوئی اور نماز نہیں پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے رہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہو گئی، تو آپ نے فجر پڑھی جس وقت صبح پوری طرح واضح ہو گئی، پھر آپ قصواء پر سوار ہو ے، اور مشعر حرام (مزدلفہ میں ایک پہاڑ ہے) کے پاس آئے، اور اس پر چڑھے اور اللہ کی تحمید، تکبیر اور تہلیل کرتے رہے، اور وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ خوب روشنی ہو گئی، پھر وہاں سے سورج نکلنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے، اور سواری پر فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے بٹھا لیا، وہ بہت بہترین بال والے گورے اور خوبصورت شخص تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور اونٹوں پر سوار عورتیں گزرنے لگیں، تو فضل انہیں دیکھنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری طرف سے اپنے ہاتھ کا آڑ کر لیا تو فضل اپنا چہرہ پھیر کر دوسری طرف سے انہیں دیکھنے لگے، یہاں تک کہ آپ وادی محسر میں آئے، وہاں آپ نے سواری کو ذرا تیز کیا، پھر آپ اس کے درمیان والے راستہ پر سے چلے جو تمہیں جمرہ عقبہ کی جانب نکالتا ہے، یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے، (یعنی جمرہ عقبہ پر) اور سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر آپ تکبیر کہتے تھے، اور کنکریاں ایسی تھی جو دونوں انگلیوں کے سروں کے درمیان آ سکیں، وادی کے نشیب سے آپ نے کنکریاں ماریں، پھر آپ نحر کے مقام پر آئے، اور ۶۳ اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر (ذبح) کیے، اور پھر علی رضی اللہ عنہ کو دیا، اور باقی اونٹوں کا نحر انہوں نے کیا، انہیں بھی آپ نے اپنی ہدی میں شریک کر لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے اونٹوں سے گوشت کا ایک ایک ٹکڑا لانے کے لیے کہا، چنانچہ لا کر اسے ایک ہانڈی میں رکھ کر پکایا گیا، پھر دونوں نے وہ گوشت کھایا اور اس کا شوربہ پیا، پھر وہاں سے لوٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس آئے، اور مکہ میں نماز پڑھی ۱۰؎، پھر خاندان بنی عبدالمطلب میں آئے، دیکھا تو یہ لوگ حاجیوں کو زمزم کا پانی پلا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبدالمطلب کے بیٹو! نکالو اور پلاؤ ۱۱؎، اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ تمہارے اس پلانے کے کام میں لوگ تم پر غالب آ جائیں گے تو تمہارے ساتھ میں بھی نکالتا“ پھر لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک ڈول دیا آپ نے بھی اس میں سے پیا۔
Hadith in Arabic
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهِ ، سَأَلَ عَنِ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ ، فَقُلْتُ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي فَحَلَّ زِرِّي الْأَعْلَى ، ثُمَّ حَلَّ زِرِّي الْأَسْفَلَ ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ شَابٌّ ، فَقَالَ : مَرْحَبًا بِكَ ، سَلْ عَمَّا شِئْتَ ، فَسَأَلْتُهُ وَهُوَ أَعْمَى ، فَجَاءَ وَقْتُ الصَّلَاةِ فَقَامَ فِي نِسَاجَةٍ مُلْتَحِفًا بِهَا كُلَّمَا وَضَعَهَا عَلَى مَنْكِبَيْهِ رَجَعَ طَرَفَاهَا إِلَيْهِ مِنْ صِغَرِهَا ، وَرِدَاؤُهُ إِلَى جَانِبِهِ عَلَى الْمِشْجَبِ ، فَصَلَّى بِنَا ، فَقُلْتُ : أَخْبِرْنَا عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ بِيَدِهِ فَعَقَدَ تِسْعًا ، وَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ ، فَأَذَّنَ فِي النَّاسِ فِي الْعَاشِرَةِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَعْمَلَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ ، فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ ، فَأَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَصْنَعُ ؟ ، قَالَ : " اغْتَسِلِي وَاسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ ، وَأَحْرِمِي " ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ ، قَالَ جَابِرٌ : نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ بَيْنَ رَاكِبٍ وَمَاشٍ وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلُ ذَلِكَ وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلُ ذَلِك وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلُ ذَلِكَ ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا وَعَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ ، وَهُوَ يَعْرِفُ تَأْوِيلَهُ مَا عَمِلَ بِهِ مِنْ شَيْءٍ عَمِلْنَا بِهِ ، فَأَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ : " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ ، لَكَ وَالْمُلْكَ ، لَا شَرِيكَ لَكَ " ، وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ ، فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَيْئًا مِنْهُ ، وَلَزِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلْبِيَتَهُ ، قَالَ جَابِرٌ : لَسْنَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ ، لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ ، حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ ، فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ، ثُمَّ قَامَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ ، فَقَالَ : وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 ، فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ ، فَكَانَ أَبِي يَقُولُ : وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا ذَكَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ، وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْبَيْتِ فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ ، ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَاب : إِلَى الصَّفَا حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْ الصَّفَا قَرَأَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 ، نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ ، فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ ، حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ ، فَكَبَّرَ اللَّهَ ، وَهَلَّلَهُ ، وَحَمِدَهُ ، وَقَالَ : " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ ، وَلَهُ الْحَمْدُ ، يُحْيِي وَيُمِيتُ ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ " ، ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ ، وَقَالَ : مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ فَمَشَى حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ رَمَلَ فِي بَطْنِ الْوَادِي ، حَتَّى إِذَا صَعِدَتَا يَعْنِي قَدَمَاهُ مَشَى حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ ، فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا ، فَلَمَّا كَانَ آخِرُ طَوَافِهِ عَلَى الْمَرْوَةِ ، قَالَ : " لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي ، مَا اسْتَدْبَرْتُ ، لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً ، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحْلِلْ وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً " ، فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا ، إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ ، فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَلِعَامِنَا هَذَا ، أَمْ لِأَبَدِ الْأَبَدِ ؟ ، قَالَ : فَشَبَّكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ فِي الْأُخْرَى ، وَقَالَ : " دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ هَكَذَا " مَرَّتَيْنِ ، " لَا بَلْ لِأَبَدِ الْأَبَدِ " ، قَالَ : وَقَدِمَ عَلِيٌّ بِبُدْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ فَاطِمَةَ مِمَّنْ حَلَّ وَلَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا وَاكْتَحَلَتْ ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا عَلِيٌّ ، فَقَالَتْ : أَمَرَنِي أَبِي بِهَذَا ، فَكَانَ عَلِيٌّ يَقُولُ بِالْعِرَاقِ : فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَرِّشًا عَلَى فَاطِمَةَ فِي الَّذِي صَنَعَتْهُ ، مُسْتَفْتِيًا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الَّذِي ذَكَرَتْ عَنْهُ ، وَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهَا ، فَقَالَ : " صَدَقَتْ صَدَقَتْ ، مَاذَا قُلْتُ حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ ؟ " ، قَالَ : قُلْتُ : اللَّهُمَّ إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " فَإِنَّ مَعِي الْهَدْيَ فَلَا تَحِلَّ " ، قَالَ : فَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي جَاءَ بِهِ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ ، وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ مِائَةً ، ثُمَّ حَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ ، وَقَصَّرُوا إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ وَتَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى أَهَلُّوا بِالْحَجِّ ، فَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِمِنًى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالصُّبْحَ ، ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ شَعَرٍ ، فَضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ ، فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَشُكُّ قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّهُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ أَوْ الْمُزْدَلِفَةِ كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَأَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ ، فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ فَنَزَلَ بِهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِلَتْ لَهُ ، فَرَكِبَ حَتَّى أَتَى بَطْنَ الْوَادِي ، فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ : " إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ ، يَوْمِكُمْ هَذَا ، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا ، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا ، أَلَا وَإِنَّ كُلَّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ تَحْتَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ ، وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ ، وَأَوَّلُ دَمٍ أَضَعُهُ دَمُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ ، وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُهُ رِبَانَا رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ ، فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ ، وَإِنَّ لَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ، وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَمْ تَضِلُّوا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابَ اللَّهِ وَأَنْتُمْ مَسْئُولُونَ عَنِّي ، فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ ؟ " ، قَالُوا : نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ ، فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُبُهَا إِلَى النَّاسِ : " اللَّهُمَّ اشْهَدْ ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ " ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ، وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ ، فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ إِلَى الصَّخَرَاتِ ، وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ ، وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَذَهَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِيلًا حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ خَلْفَهُ فَدَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَدْ شَنَقَ الْقَصْوَاءَ بِالزِّمَامِ حَتَّى إِنَّ رَأْسَهَا لَيُصِيبُ مَوْرِكَ رَحْلِهِ ، وَيَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى : " أَيُّهَا النَّاسُ السَّكِينَةَ ، السَّكِينَةَ " ، كُلَّمَا أَتَى حَبْلًا مِنَ الْحِبَالِ ، أَرْخَى لَهَا قَلِيلًا حَتَّى تَصْعَدَ ، ثُمَّ أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ، ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ فَصَلَّى الْفَجْرَ حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ فَرَقِيَ عَلَيْهِ ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا ، ثُمَّ دَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ الْعَبَّاسِ وَكَانَ رَجُلًا حَسَنَ الشَّعَرِ ، أَبْيَضَ وَسِيمًا ، فَلَمَّا دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ الظُّعُنُ يَجْرِينَ فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ فَصَرَفَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ حَتَّى أَتَى مُحَسِّرًا ، حَرَّكَ قَلِيلًا ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تُخْرِجُكَ إِلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى ، حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ ، فَرَمَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا مِثْلِ : حَصَى الْخَذْفِ ، وَرَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بَدَنَةً بِيَدِهِ ، وَأَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ ، ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ ، فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا ، ثُمَّ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْبَيْتِ فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ ، فَأَتَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَهُمْ يَسْقُونَ عَلَى زَمْزَمَ ، فَقَالَ : " انْزَعُوا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، لَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ ، لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ " . فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ .
- Previous Hadith
- Hadith No. 3074 of 4340
- Next Hadith
Your Comments/Thoughts ?
حج و عمرہ کے احکام و مسائل سے مزید احادیث
حدیث نمبر 2888
´ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عمرے سے دوسرے عمرے تک جتنے گناہ ہوں ان سب کا کفارہ یہ عمرہ ہوتا ہے، اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ اور نہیں“ ۱؎۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3029
´عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کی صبح کو فرمایا، اس وقت آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے: ”میرے لیے کنکریاں چن کر لاؤ“، چنانچہ میں نے آپ کے لیے سات کنکریاں چنیں، وہ کنکریاں ایسی تھیں جو دونوں ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2968
´انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے، میں نے آپ کو حج اور عمرہ کا ایک ساتھ تلبیہ پکارتے ہوئے سنا ۱؎۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3027
´ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ` سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا ایک بھاری بھر کم عورت تھیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزدلفہ سے لوگوں کی روانگی سے پہلے جانے کی اجازت چاہی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2889
´ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس گھر (کعبہ) کا حج کیا، اور نہ (ایام حج میں) جماع کیا، اور نہ گناہ کے کام کئے، تو وہ اس طرح واپس آئے گا جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے“۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3111
´ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان مدینہ میں اسی طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنی بل میں سما جاتا ہے“ ۱؎۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2963
´ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ` ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج کرنا تھا، جب ہم مقام سرف میں تھے یا سرف کے قریب پہنچے تو مجھے حیض آ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، میں رو رہی تھی تو آپ مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3084
´اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی کے مثل مروی ہے` مگر اس میں «أوقصته» کے بجائے «أعقصته راحلته» ہے اور اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو خوشبو نہ لگاؤ کیونکہ وہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھایا ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2890
´انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرانے کجاوے پر سوار ہو کر ایک ایسی چادر میں حج کیا جس کی قیمت چار درہم کے برابر رہی ہو گی، یا اتنی بھی نہیں، پھر فرمایا: ”اے اللہ! یہ ایسا حج ہے جس میں نہ ریا کاری ہے اور نہ شہرت“ ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3116
´ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ` ایک شخص نے میرے ساتھ کچھ درہم خانہ کعبہ کے لیے ہدیہ بھیجے، میں خانہ کعبہ کے اندر آیا، اور شیبہ (خانہ کعبہ کے کلید بردار) کو جو ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے انہیں وہ درہم دے دئیے، انہوں نے پوچھا: کیا یہ تمہارے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں، اگر ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2898
´ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت تین یا اس سے زیادہ دنوں کا سفر باپ یا بھائی یا بیٹے یا شوہر یا کسی محرم کے بغیر نہ کرے“ ۱؎۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3031
´سلیمان بن عمرو بن احوص کی ماں ام جندب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ` میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یوم النحر کو جمرہ عقبہ کے پاس دیکھا، آپ وادی کے نشیب میں تشریف لے گئے، اور جمرہ عقبہ کو سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے پھر لوٹ آئے۔ اس سند سے بھی مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3119
´ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے مدینہ سے مکہ پیدل چل کر حج کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے تہ بند اپنی کمر میں باندھ لو“، اور آپ ایسی چال چلے جس میں دوڑ ملی ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2919
´جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا: «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» ”حاضر ہوں اے اللہ! تیری خدمت میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، حمد و ثناء، ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3086
´ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شتر مرغ کے انڈوں کے بارے میں جو محرم کو ملیں، فرمایا: ”اسے اس کی قیمت دینی ہو گی“۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2934
´عبداللہ بن حنین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ` عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہم کے درمیان مقام ابواء میں اختلاف ہوا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: محرم اپنا سر دھو سکتا ہے، اور مسور رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں دھو سکتا، چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے ابوایوب ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3048
´جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورا منیٰ قربانی کی جگہ ہے، اور مکہ کی سب گلیاں راستے، قربانی کی جگہیں ہیں، پورا عرفات اور پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے“۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2999
´عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں` نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے ساتھ سوار کر کے لے جائیں، اور انہیں تنعیم سے عمرہ کرائیں۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 3088
´عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ قسم کے جانور ہیں جنہیں احرام کی حالت میں مارنے میں گناہ نہیں: بچھو، کوا، چیل، چوہیا اور کاٹ کھانے والا کتا“ ۱؎۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 2926
´ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ` میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام کے وقت احرام باندھنے سے قبل خوشبو لگائی، اور احرام کھولنے کے وقت بھی طواف افاضہ کرنے سے پہلے۔ سفیان کی روایت میں یہ بھی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: خوشبو میں نے اپنے انہی دونوں ہاتھوں ..مکمل حدیث پڑھیئے