Warning: session_start(): open(/var/cpanel/php/sessions/ea-php56/sess_fd221da23d642c3709a8459582317299, O_RDWR) failed: Disk quota exceeded (122) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1

Warning: session_start(): Failed to read session data: files (path: /var/cpanel/php/sessions/ea-php56) in /home/dars/public_html/helper/cn.php on line 1
Hadith No 1905 Sunan Abi Dawud - Aimaal Hajj Aur Uske Ehkaam O Masail Chapter In Sunan Abi Dawud - Darsaal

Hadith no 1905 Of Sunan Abi Dawud Chapter Aimaal Hajj Aur Uske Ehkaam O Masail (The Rites Of Pilgrimage-kitab Al-manasik Wal-hajj)

Read Sunan Abi Dawud Hadith No 1905 - Hadith No 1905 is from The Rites Of Pilgrimage-kitab Al-manasik Wal-hajj , Aimaal Hajj Aur Uske Ehkaam O Masail Chapter in the Sunan Abi Dawud Hadees Book, which is written by Imam Abu Dawood. Hadith # 1905 of Imam Abu Dawood covers the topic of The Rites Of Pilgrimage-kitab Al-manasik Wal-hajj briefly in Sunan Abi Dawud. You can read Hadith No 1905 from The Rites Of Pilgrimage-kitab Al-manasik Wal-hajj in Urdu, Arabic and English Text with pdf download.

سنن ابی داود - حدیث نمبر 1905

Hadith No 1905
Book Name Sunan Abi Dawud
Book Writer Imam Abu Dawood
Writer Death 275 ھ
Chapter Name The Rites Of Pilgrimage-kitab Al-manasik Wal-hajj
Roman Name Aimaal Hajj Aur Uske Ehkaam O Masail
Arabic Name المناسك
Urdu Name اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل

Urdu Translation

´جعفر بن محمد اپنے والد محمد (محمد باقر) سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ` ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے جب ہم ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آنے والوں کے بارے میں (ہر ایک سے) پوچھا یہاں تک کہ جب مجھ تک پہنچے تو میں نے کہا: میں محمد بن علی بن حسین ہوں، تو انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سر کی طرف بڑھایا، اور میرے کرتے کے اوپر کی گھنڈی کھولی، پھر نیچے کی کھولی، اور پھر اپنی ہتھیلی میرے دونوں چھاتیوں کے بیچ میں رکھی، میں ان دنوں جوان تھا، پھر کہا: خوش آمدید، اے میرے بھتیجے! جو چاہو پوچھو، میں نے ان سے سوالات کئے، وہ نابینا ہو چکے تھے اور نماز کا وقت آ گیا، تو وہ ایک کپڑا اوڑھ کر کھڑے ہو گئے (یعنی ایک ایسا کپڑا جو دہرا کر کے سلا ہوا تھا)، جب اسے اپنے کندھے پر ڈالتے تو چھوٹا ہونے کی وجہ سے وہ کندھے سے گر جاتا، چنانچہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی اور ان کی چادر ان کے بغل میں تپائی پر رکھی ہوئی تھی، میں نے عرض کیا: مجھے اللہ کے رسول کے حج کا حال بتائیے، پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور نو کی گرہ بنائی پھر بولے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو سال تک (مدینہ میں) حج کئے بغیر رہے، پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کو جانے والے ہیں، چنانچہ مدینہ میں لوگ کثرت سے آ گئے ۱؎، ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں حج کرے، اور آپ ہی کی طرح سارے کام انجام دے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ کے ساتھ ہم بھی نکلے، ہم لوگ ذی الحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے یہاں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوئی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوایا: میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم غسل کر لو، اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ لو، اور احرام پہن لو، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ذو الحلیفہ کی) مسجد میں نماز پڑھی، پھر قصواء (نامی اونٹنی) پر سوار ہوئے، یہاں تک کہ جب بیداء میں اونٹنی کو لے کر سیدھی ہو گئی (جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) تو میں نے تاحد نگاہ دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سوار بھی ہیں پیدل بھی، اسی طرح معاملہ دائیں جانب تھا، اسی طرح بائیں جانب، اور اسی طرح آپ کے پیچھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان میں تھے ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہو رہا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا معنی سمجھتے تھے، چنانچہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ویسے ہی ہم بھی کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید پر مشتمل تلبیہ: «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» پکارا، اور لوگ وہی تلبیہ پکارتے رہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پکارا کرتے تھے ۲؎، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس میں سے کسی بھی لفظ سے منع نہیں کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تلبیہ ہی برابر کہتے رہے۔ ہماری نیت صرف حج کی تھی، ہمیں پتہ نہیں تھا کہ عمرہ بھی کرنا پڑے گا ۳؎، جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا پھر تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار پھیروں میں عام چال چلے، پھر مقام ابراہیم کے پاس آئے اور یہ آیت پڑھی: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» ۴؎، اور مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے بیچ میں رکھا۔ (محمد بن جعفر) کہتے ہیں: میرے والد کہتے تھے (ابن نفیل اور عثمان کی روایت میں ہے) کہ میں یہی جانتا ہوں کہ جابر رضی اللہ عنہ نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے (اور سلیمان کی روایت میں ہے) میں یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے کہا: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں رکعتوں میں «قل هو الله أحد» اور «قل يا أيها الكافرون» پڑھا ۵؎، پھر بیت اللہ کی طرف لوٹے اور حجر اسود کا استلام کیا، اس کے بعد (مسجد کے) دروازے سے صفا کی طرف نکل گئے جب صفا سے قریب ہوئے تو «إن الصفا والمروة من شعائر الله» پڑھا اور فرمایا: ہم بھی وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا سے ابتداء کی اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کو دیکھا، تو اللہ کی بڑائی اور وحدانیت بیان کی اور فرمایا: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شىء قدير لا إله إلا الله وحده أنجز وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده» پھر اس کے درمیان میں دعا مانگی اور اس طرح تین بار کہا، پھر مروہ کی طرف اتر کر آئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم ڈھلکنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطن وادی ۶؎ میں رمل کیا یہاں تک کہ جب چڑھنے لگے تو عام چال چلے، یہاں تک کہ مروہ آئے تو وہاں بھی وہی کیا جو صفا پہ کیا تھا، جب طواف کا آخری پھیرا مروہ پہ ختم ہوا تو فرمایا: اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا جو کہ بعد میں معلوم ہوا تو میں ہدی نہ لاتا اور میں اسے عمرہ بنا دیتا، لہٰذا تم میں سے جس کے ساتھ ہدی نہ ہو تو وہ حلال ہو جائے، اور اسے عمرہ بنا لے۔ سبھی لوگ حلال ہو گئے اور بال کتروا لیے سوائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی تھی۔ پھر سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا یہ (عمرہ) صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے میں داخل کیں اور فرمایا: عمرہ حج میں اسی طرح داخل ہو گیا، اسے دو مرتبہ فرمایا: (صرف اسی سال کے لیے) نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے (صرف اسی سال کے لیے) نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے، اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدی کے اونٹ لے کر آئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ان لوگوں میں سے پایا جنہوں نے احرام کھول ڈالا تھا، وہ رنگین کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھیں، اور سرمہ لگا رکھا تھا، علی رضی اللہ عنہ کو یہ ناگوار لگا، وہ کہنے لگے: تمہیں کس نے اس کا حکم دیا تھا؟ وہ بولیں: میرے والد نے۔ علی رضی اللہ عنہ (اپنے ایام خلافت میں) عراق میں کہا کرتے تھے کہ میں ان کاموں سے جن کو فاطمہ نے کر رکھا تھا غصہ میں بھرا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پوچھنے کے لیے آیا جو فاطمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بتائی تھی، اور جس پر میں نے ناگواری کا اظہار کیا تھا، تو انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والد نے اس کا حکم دیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے سچ کہا، اس نے سچ کہا، تم نے حج کی نیت کرتے وقت کیا کہا تھا؟، عرض کیا: میں نے یوں کہا تھا: اے اللہ! میں اسی کا احرام باندھتا ہوں جس کا تیرے رسول نے باندھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے ساتھ تو ہدی ہے اب تم بھی احرام نہ کھولنا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہدی کے جانوروں کی مجموعی تعداد جو علی رضی اللہ عنہ یمن سے لے کر آئے تھے اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے لے کر آئے تھے کل سو (۱۰۰) تھی، چنانچہ تمام لوگوں نے احرام کھول دیا، اور بال کتروائے سوائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی تھی۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب یوم الترویہ (ذو الحجہ کا آٹھواں دن) آیا تو سب لوگوں نے منیٰ کا رخ کیا اور حج کا احرام باندھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوار ہوئے، اور منیٰ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا کیں۔ پھر کچھ دیر ٹھہرے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے بالوں سے بنا ہوا ایک خیمہ کا حکم دیا، تو وادی نمرہ میں خیمہ لگایا گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے، قریش کو اس بات میں شک نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ میں مشعر حرام ۷؎ کے پاس ٹھہریں گے جیسے جاہلیت میں قریش کیا کرتے تھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ عرفات جا پہنچے ۸؎ تو دیکھا کہ خیمہ نمرہ میں لگا دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اترے یہاں تک کہ جب سورج ڈھل گیا تو قصواء کو لانے کا حکم فرمایا، اس پر کجاوہ باندھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوئے یہاں تک کہ وادی کے اندر آئے، تو لوگوں کو خطاب کیا اور فرمایا: تمہاری جانیں اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن، تمہارے اس مہینے، اور تمہارے اس شہر میں۔ سنو! جاہلیت کے زمانے کی ہر بات میرے قدموں تلے پامال ہو گئی (یعنی لغو اور باطل ہو گئی اور اس کا اعتبار نہ رہا) جاہلیت کے سارے خون معاف ہیں اور سب سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ یا ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا ہے- وہ بنی سعد میں دودھ پی رہا تھا- اسے ہذیل کے لوگوں نے قتل کر دیا تھا (وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا زاد بھائی تھا) اور جاہلیت کے تمام سود ختم ہیں سب سے پہلا سود جسے میں ختم کرتا ہوں وہ اپنا سود ہے یعنی عباس بن عبدالمطلب کا کیونکہ سود سبھی ختم ہیں خواہ وہ کسی کے بھی ہوں۔ اور عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اس لیے کہ تم نے انہیں اللہ کی امان کے ساتھ اپنے قبضہ میں لیا ہے، اور تم نے اللہ کے حکم سے ان کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر اس شخص کو نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو، اب اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بس اس قدر مارو کہ ہڈی نہ ٹوٹنے پائے، اور انہیں تم سے دستور کے مطابق کھانا لینے اور کپڑا لینے کا حق ہے۔ میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہو گے، وہ اللہ کی کتاب ہے۔ (اچھا بتاؤ) تم سے قیامت کے روز میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تمہارا جواب کیا ہو گا؟ لوگوں نے کہا: ہم گواہی دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا حکم پہنچا دیا، حق ادا کر دیا، اور نصیحت کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا، پھر لوگوں کی طرف جھکایا، اور فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہ، اے اللہ! تو گواہ رہ۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھی اور انہوں نے پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی یہاں تک کہ میدان عرفات آئے تو اپنی اونٹنی قصواء کا پیٹ صخرات (بڑے پتھروں) کی جانب کیا، اور حبل المشاۃ کو اپنے سامنے کیا، اور قبلہ رخ ہوئے، اور شام تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور سورج کی ٹکیہ غائب ہونے کے بعد زردی کچھ کم ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا، پھر عرفات سے لوٹے، قصواء کی باگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھینچ کر رکھی تھی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کے سر سے چھو جایا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے داہنے ہاتھ کے اشارہ سے لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ: لوگو! اطمینان سے چلو!، لوگو! اطمینان سے چلو!، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بلندی پر آتے تو باگ ڈھیلی چھوڑ دیتے تاکہ وہ چڑھ سکے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ملا کر پڑھیں۔ عثمان کہتے ہیں: دونوں کے بیچ میں کوئی نفلی نماز نہیں پڑھی پھر سارے راوی متفق ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھی یہاں تک کہ صبح خوب اچھی طرح روشن ہو گئی، سلیمان کہتے ہیں (یہ نماز) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اذان اور ایک اقامت سے (پڑھی)، پھر سارے راوی متفق ہیں)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قصواء پر سوار ہوئے یہاں تک کہ مشعر حرام کے پاس آئے، اس پر چڑھے، (عثمان اور سلیمان کہتے ہیں) پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ کی تحمید، تکبیر اور تہلیل کی، (عثمان نے یہ اضافہ کیا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید بیان کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ خوب روشنی ہو گئی اس کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چل پڑے، اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے سوار کر لیا، وہ نہایت عمدہ بال والے گورے خوبصورت شخص تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے تو آپ کا گزر ایسی عورتوں پر ہوا جو ہودجوں میں بیٹھی ہوئی جا رہی تھیں، فضل ان کی طرف دیکھنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ فضل کے چہرے پر رکھ دیا تو فضل نے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنا ہاتھ دوسری جانب موڑ دیا تو فضل نے اپنا رخ اور جانب موڑ لیا اور دیکھنے لگے، یہاں تک کہ جب وادی محسر میں آئے تو اپنی سواری کو ذرا حرکت دی (یعنی ذرا تیز چلایا) پھر درمیانی راستے ۹؎ سے چلے جو جمرہ عقبہ پہنچاتا ہے یہاں تک کہ جب اس جمرے کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے تو اسے سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر تکبیر کہی، کنکری اتنی بڑی تھی کہ انگلی میں رکھ کر پھینک رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی کے اندر سے کنکریاں ماریں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نحر کرنے کی جگہ کو آئے، اور اپنے ہاتھ سے (۶۳) اونٹنیاں نحر کیں، اور پھر علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو باقی انہوں نے نحر کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اپنے ہدی میں شریک کر لیا (یعنی اپنے ہدی کے اونٹوں میں سے کچھ اونٹ انہیں بھی نحر کرنے کے لیے دے دیئے) پھر ہر اونٹ میں سے گوشت کا ایک ایک ٹکڑا لینے کا حکم دیا، تو وہ سب ٹکڑے ایک دیگ میں رکھ کر پکائے گئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور علی رضی اللہ عنہ) دونوں نے ان کا گوشت کھایا اور ان کا شوربہ پیا، (سلیمان کہتے ہیں) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف چلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں ۱۰؎ ظہر پڑھی۔ پھر بنی عبدالمطلب کے پاس آئے، وہ لوگ آب زمزم پلا رہے تھے فرمایا: اے بنی عبدالمطلب! پانی کھینچو، اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تمہارے سقایہ پر لوگ تم پر غالب آ جائیں گے ۱۱؎ تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچتا، ان لوگوں نے ایک ڈول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے پیا۔

Hadith in Arabic

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّقَيْلِيُّ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيَّانِ وَرُبَّما زَادَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ الْكَلِمَةَ وَالشَّيْءَ ، قَالُوا : حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : " دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهِ سَأَلَ عَنِ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ ، فَقُلْتُ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي فَنَزَعَ زِرِّي الْأَعْلَى ثُمَّ نَزَعَ زِرِّي الْأَسْفَلَ ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ شَابٌّ ، فَقَالَ : مَرْحَبًا بِكَ وَأَهْلًا يَا ابْنَ أَخِي ، سَلْ عَمَّا شِئْتَ فَسَأَلْتُهُ وَهُوَ أَعْمَى ، وَجَاءَ وَقْتُ الصَّلَاةِ فَقَامَ فِي نِسَاجَةٍ مُلْتَحِفًا بِهَا ، يَعْنِي ثَوْبًا مُلَفَّقًا ، كُلَّمَا وَضَعَهَا عَلَى مَنْكِبِهِ رَجَعَ طَرَفَاهَا إِلَيْهِ مِنْ صِغَرِهَا فَصَلَّى بِنَا وَرِدَاؤُهُ إِلَى جَنْبِهِ عَلَى الْمِشْجَبِ ، فَقُلْتُ : أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ بِيَدِهِ : فَعَقَدَ تِسْعًا ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ ، ثُمَّ أُذِّنَ فِي النَّاسِ فِي الْعَاشِرَةِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَعْمَلَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ ، فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَصْنَعُ ، فَقَالَ : اغْتَسِلِي وَاسْتَذْفِرِي بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ ، قَالَ جَابِرٌ : نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلُ ذَلِكَ وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلُ ذَلِكَ وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلُ ذَلِكَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا وَعَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ وَهُوَ يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ فَمَا عَمِلَ بِهِ مِنْ شَيْءٍ عَمِلْنَا بِهِ ، فَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالتَّوْحِيدِ : لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ ، لَا شَرِيكَ لَكَ ، وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مِنْهُ وَلَزِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلْبِيَتَهُ ، قَالَ جَابِرٌ : لَسْنَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ ، لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ثُمَّ تَقَدَّمَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ فَقَرَأَ : وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ ، قَالَ : فَكَانَ أَبِي ، يَقُولُ : قَالَ ابْنُ نُفَيْلٍ وَ عُثْمَانُ : وَلَا أَعْلَمُهُ ذَكَرَهُ إِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ سُلَيْمَانُ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ بِ : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْبَيْتِ فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا ، فَلَمَّا دَنَا مِنْ الصَّفَا قَرَأَ : إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ ، فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ فَكَبَّرَ اللَّهَ وَوَحَّدَهُ ، وَقَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ ، ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ وَقَالَ مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ رَمَلَ فِي بَطْنِ الْوَادِي حَتَّى إِذَا صَعَدَ مَشَى حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ فَصَنَعَ عَلَى الْمَرْوَةِ مِثْلَ مَا صَنَعَ عَلَى الصَّفَا حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرُ الطَّوَافِ عَلَى الْمَرْوَةِ ، قَالَ : إِنِّي لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ وَلَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً ، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُحْلِلْ وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً ، فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ ، فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ جُعْشُمٍ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِلْأَبَدِ ؟ فَشَبَّكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ فِي الْأُخْرَى ، ثُمَّ قَالَ : دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ هَكَذَا مَرَّتَيْنِ ، لَا بَلْ لِأَبَدِ أَبَدٍ ، لَا بَلْ لِأَبَدِ أَبَدٍ ، قَالَ : وَقَدِمَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ الْيَمَنِ بِبُدْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مِمَّنْ حَلَّ وَلَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا وَاكْتَحَلَتْ ، فَأَنْكَرَ عَلِيٌّ ذَلِكَ عَلَيْهَا ، وَقَالَ : مَنْ أَمَرَكِ بِهَذَا ؟ فَقَالَتْ : أَبِي ، فَكَانَ عَلِيٌّ ، يَقُولُ بِالْعِرَاقِ : ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَرِّشًا عَلَى فَاطِمَةَ فِي الْأَمْرِ الَّذِي صَنَعَتْهُ مُسْتَفْتِيًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الَّذِي ذَكَرَتْ عَنْهُ فَأَخْبَرْتُهُ أَنِّي أَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهَا ، فَقَالَتْ : إِنَّ أَبِي أَمَرَنِي بِهَذَا ، فَقَالَ : صَدَقَتْ صَدَقَتْ ، مَاذَا قُلْتَ حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ ؟ قَالَ : قُلْتُ : اللَّهُمَّ إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَإِنَّ مَعِيَ الْهَدْيَ فَلَا تَحْلِلْ ، قَالَ : وَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي قَدِمَ بِهِ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ مِائَةً فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ ، قَالَ : فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ وَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى أَهَلُّوا بِالْحَجِّ ، فَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِمِنًى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالصُّبْحَ ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ لَهُ مِنْ شَعْرٍ فَضُرِبَتْ بِنَمِرَةٍ فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَلَا تَشُكُّ قُرَيْشٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ بِالْمُزْدَلِفَةِ كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَأَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةٍ فَنَزَلَ بِهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِلَتْ لَهُ فَرَكِبَ حَتَّى أَتَى بَطْنَ الْوَادِي ، فَخَطَبَ النَّاسَ ، فَقَالَ : إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا ، أَلَا إِنَّ كُلَّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ وَأَوَّلُ دَمٍ أَضَعُهُ دِمَاؤُنَا دَمُ ، قَالَ عُثْمَانُ : دَمُ ابْنُ رَبِيعَةَ ، وقَالَ سُلَيْمَانُ : دَمُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وقَالَ بَعْضُ هَؤُلَاءِ : كَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي سَعْدٍ ، فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُهُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ ، اتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ وَإِنَّ لَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ، وَإِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ : كِتَابَ اللَّهِ وَأَنْتُمْ مَسْئُولُونَ عَنِّي ، فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ ؟ ، قَالُوا : نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ ، ثُمَّ قَالَ بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُبُهَا إِلَى النَّاسِ : اللَّهُمَّ اشْهَدْ ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ ، ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصَّخَرَاتِ وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَذَهَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِيلًا حِينَ غَابَ الْقُرْصُ ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ خَلْفَهُ فَدَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ حَتَّى إِنَّ رَأْسَهَا لَيُصِيبُ مَوْرِكَ رَحْلِهِ وَهُوَ يَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى : السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ ، السَّكِينَةَ أَيُّهَا النَّاسُ ، كُلَّمَا أَتَى حَبْلًا مِنَ الْحِبَالِ أَرْخَى لَهَا قَلِيلًا حَتَّى تَصْعَدَ حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَجَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ ، قَالَ عُثْمَانُ : وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ، ثُمَّ اتَّفَقُوا ، ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ ، فَصَلَّى الْفَجْرَ حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ ، قَالَ سُلَيْمَانُ : بِنِدَاءٍ وَإِقَامَةٍ ، ثُمَّ اتَّفَقُوا ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ فَرَقِيَ عَلَيْهِ ، قَالَ عُثْمَانُ وَ سُلَيْمَانُ : فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ ، زَادَ عُثْمَانُ : وَوَحَّدَهُ ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا ثُمَّ دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ : وَكَانَ رَجُلًا حَسَنَ الشَّعْرِ أَبْيَضَ وَسِيمًا ، فَلَمَّا دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ الظُّعُنُ يَجْرِينَ فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ وَصَرَفَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ وَحَوَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ وَصَرَفَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ حَتَّى أَتَى مُحَسِّرًا فَحَرَّكَ قَلِيلًا ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّذِي يُخْرِجُكَ إِلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ فَرَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي ، ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ بِيَدِهِ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ ، وَأَمَرَ عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ ، يَقُولُ : مَا بَقِيَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ ، ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا ، قَالَ سُلَيْمَانُ : ثُمَّ رَكِبَ ، ثُمَّ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْبَيْتِ فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ ، ثُمَّ أَتَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَهُمْ يَسْقُونَ عَلَى زَمْزَمَ ، فَقَالَ : انْزِعُوا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فَلَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ " .

English Translation

Jafar bin Muhammad reported on the authority of his father “We entered upon Jabir bin Abd Allaah. When we reached him, he asked about the people (who had come to visit him). When my turn came I said “I am Muhammad bin Ali bin Hussain. He patted my head with his hand and undid my upper then lower buttons. He then placed his hand between my nipples and in those days I was a young boy. ” He then said “welcome to you my nephew, ask what you like. I questioned him he was blind. The time of prayer came and he stood wrapped in a mantle. Whenever he placed it on his shoulders its ends fell due to its shortness. He led us in prayer while his mantle was placed on a rack by his side. I said “tell me about the Hajj of the Messenger of Allah ﷺ. ”He signed with his hand and folded his fingers indicating nine. He then said Messenger of Allah ﷺ remained nine years (at Madeenah ) during which he did not perform Hajj, then made a public announcement in the tenth year to the effect that the Messenger of Allah ﷺ was about to (go to) perform Hajj. A large number of people came to Madeenah everyone desiring to follow him and act like him. The Messenger of Allah ﷺ went out and we too went out with him till we reached Dhu Al Hulaifah. Asma daughter of ‘Umais gave birth to Muhammad bin Abi Bakr. She sent message to Messenger of Allah ﷺ asking him What should I do?He replied “take a bath, bandage your private parts with a cloth and put on ihram. ” The Messenger of Allah ﷺ then prayed (in the masjid) and mounted Al Qaswa’ and his she Camel stood erect with him on its back. Jabir said “I saw (a large number of) people on mounts and on foot in front of him and a similar number on his right side and a similar number on his left side and a similar number behind him. The Messenger of Allah ﷺ was among us, the Quran was being revealed to him and he knew its interpretation. Whatever he did, we did it. The Messenger of Allah ﷺ then raised his voice declaring Allaah’s unity and saying “Labbaik ( I am at thy service), O Allaah, labbaik, labbaik, Thou hast no partner praise and grace are Thine and the Dominion. Thou hast no partner. The people too raised their voices in talbiyah which they used to utter. But the Messenger of Allah ﷺ did not forbid them anything. The Messenger of Allah ﷺ continued his talbiyah. Jabir said “We did not express our intention of performing anything but Hajj, being unaware of ‘Umrah (at that season), but when we came with him to the House (the Kaabah), he touched the corner (and made seven circuits) walking quickly with pride in three of them and walking ordinarily in four. Then going forward to the station of Abraham he recited “And take the station of Abraham as a place of prayer. ” (While praying two rak’ahs) he kept the station between him and the House. The narrator said My father said that Ibn Nufail and Uthman said I do not know that he (Jabir) narrated it from anyone except the Prophet ﷺ. The narrator Sulaiman said I do not know but he (Jabir) said “The Messenger of Allah ﷺ used to recite in the two rak’ahs “Say, He is Allaah, one” and “Say O infidels”. He then returned to the House (the Kaabah) and touched the corner after which he went out by the gate to Al Safa’. When he reached near Al Safa’ he recited “Al Safa’ and Al Marwah are among the indications of Allaah” and he added “We begin with what Allaah began with”. He then began with Al Safa’ and mounting it till he could see the House (the Kaabah) he declared the greatness of Allaah and proclaimed his Unity. He then said “there is no god but Allaah alone, Who alone has fulfilled His promise, helped His servant and routed the confederates. He then made supplication in the course of that saying such words three times. He then descended and walked towards Al Marwah and when his feet came down into the bottom of the valley, he ran, and when he began to ascend he walked till he reached Al Marwah. He did at al Marwah as he had done at Al Safa’ and when he came to Al Marwah for the last time, he said “If I had known before what I have come to know afterwards regarding this matter of mine, I would not have brought sacrificial animals but made it an ‘Umrah, so if any of you has no sacrificial animals, he may take off ihram and treat it as an ‘Umrah. All the people then took off ihram and clipped their hair except the Prophet ﷺ and those who had brought sacrificial animals. Suraqah (bin Malik) bin Ju’sham then got up and asked Messenger of Allah ﷺdoes this apply to the present year or does it apply for ever? The Messenger of Allah ﷺ interwined his fingers and said “The Umarh has been incorporated in Hajj. Adding ‘No’, but forever and ever. Ali came from Yemen with the sacrificial animals of the Messenger of Allah ﷺ and found Fathima among one of those who had taken off their ihram. She said put on colored clothes and stained her eyes with collyrium. Ali disliked (this action of her) and asked Who commanded you for this? She said “My father”. Jabir said Ali said at Iraq I went to Messenger of Allah ﷺ to complain against Fathima for what she had done and to ask the opinion of Messenger of Allah ﷺ about which she mentioned to me. I informed him that I disliked her action and that thereupon she said to me “My father commanded me to do this. ” He said “She spoke the truth, she spoke the truth. ” What did you say when you put on ihram for Hajj? I said O Allaah, I put on ihram for the same purpose for which Messenger of Allah ﷺ has put it on. He said I have sacrificial animals with me, so do not take off ihram. He (Jabir) said “The total of those sacrificial animals brought by Ali from Yemen and of those brought by the Prophet ﷺ from Madeenah was one hundred. ” Then all the people except the Prophet ﷺ and those who had with them the sacrificial animals took off ihram and clipped their hair. When the 8th of Dhu Al Hijjah (Yaum Al Tarwiyah) came, they went towards Mina having pit on ihram for Hajj and the Messenger of Allah ﷺ rode and prayed at Mina the noon, afternoon, sunset, night and dawn prayers. After that he waited a little till the sun rose and gave orders for a tent of hair to be set up at Namrah. The Messenger of Allah ﷺ then sent out and the Quraish did not doubt that he would halt at Al Mash ‘ar Al Haram at Al Muzdalifah, as the Quraish used to do in the pre Islamic period but he passed on till he came to ‘Arafah and found that the tent had been setup at Namrah. There he dismounted and when the sun had passed the meridian he ordered Al Qaswa’ to be brought and when it was saddled for him, he went down to the bottom of the valley and addressed the people saying “Your lives and your property must be respected by one another like the sacredness of this day of yours in the month of yours in this town of yours. Lo! Everything pertaining to the pre Islamic period has been put under my feet and claims for blood vengeance belonging to the pre Islamic period have been abolished. The first of those murdered among us whose blood vengeance I permit is the blood vengeance of ours (according to the version of the narrator Uthman, the blood vengeance of the son of Rabiah and according to the version of the narrator Sulaiman the blood vengeance of the son of Rabiah bin Al Harith bin Abd Al Muttalib). Some (scholars) said “he was suckled among Banu Saad (i. e., he was brought up among Bani Saad) and then killed by Hudhail. The usury of the pre Islamic period is abolished and the first of usury I abolish is our usury, the usury of Abbas bin Abd Al Muttalib for it is all abolished. Fear Allaah regarding women for you have got them under Allah’s security and have the right to intercourse with them by Allaah’s word. It is a duty from you on them not to allow anyone whom you dislike to lie on your beds but if they do beat them, but not severely. You are responsible for providing them with food and clothing in a fitting manner. I have left among you something by which if you hold to it you will never again go astray, that is Allaah’s Book. You will be asked about me, so what will you say? They replied “We testify that you have conveyed and fulfilled the message and given counsel. Then raising his forefinger towards the sky and pointing it at the people, he said “O Allaah! Be witness, O Allaah! Be witness, O Allaah! Be witness! Bilal then uttered the call to prayer and the iqamah and he prayed the noon prayer, he then uttered the iqamah and he prayed the afternoon prayer, engaging in no prayer between the two. He then mounted (his she Camel) al Qaswa’ and came to the place of standing, making his she Camel Al Qaswa‘ turn its back to the rocks and having the path taken by those who went on foot in front of him and he faced the qiblah. He remained standing till sunset when the yellow light had somewhat gone and the disc of the sun had disappeared. He took Usamah up behind him and picked the reins of Al Qaswa’ severely so much so that its head was touching the front part of the saddle. Pointing with is right hand he was saying “Calmness, O People! Calmness, O people. Whenever he came over a mound (of sand) he let loose its reins a little so that it could ascend. He then came to Al Muzdalifah where he combined the sunset and night prayers, with one adhan and two iqamahs. The narrator ‘Uthamn said He did not offer supererogatory prayers between them. The narrators are then agreed upon the version He then lay down till dawn and prayed the dawn prayer when the morning light was clear. The narrator Sulaiman said with one adhan and one iqamah. The narrators are then agreed upon the version He then mounted Al Qaswa’ and came to Al Mash’ar Al Haram and ascended it. The narrators ‘Uthaman and Sulaiman said He faced the qiblah praised Allaah, declared His greatness, His uniqueness. ‘Uthamn added in his version and His Unity and kept standing till the day was very clear. The Messenger of Allah ﷺ then went quickly before the sun rose, taking Al Fadl bin Abbas behind him. He was a man having beautiful hair, white and handsome color. When the Messenger of Allah ﷺ went quickly, the women in the howdas also began to pass him quickly. Al Fadl began to look at them. The Messenger of Allah ﷺ placed his hand on the face of Al Fadl, but Al fadl turned his face towards the other side. The Messenger of Allah ﷺ also turned away his hand to the other side. Al Fadl also turned his face to the other side looking at them till he came to (the Valley of) Muhassir. He urged the Camel a little and following a middle road which comes out at the greatest jamrah, he came to the jamrah which is beside the tree and he threw seven small pebbles at this (jamrah) saying “Allah is most great” each time he threw a pebble like bean seeds. He threw them from the bottom of the valley. The Messenger of Allah ﷺ then went to the place of the sacrifice and sacrificed sixty three Camels with his own hand. He then commanded Ali who sacrificed the remainder and he shared him and his sacrificial animals. After that he ordered that a piece of flesh from each Camel should be put in a pot and when it was cooked the two of them ate some of it and drank some of its broth. The narrator Sulaiman said the he mounted afterwards the Messenger of Allah ﷺ went quickly to the House (the Kaabah) and prayed the noon prayer at Makkah. He came to Banu Abd Al Muttalib who were supplying water at Zamzam and said draw water Banu Abd Al Muttalib were it not that people would take from you the right to draw water, I would draw it along with you. So they handed him a bucket and he drank from it.

Your Comments/Thoughts ?

اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل سے مزید احادیث

حدیث نمبر 1768

´یونس کہتے ہیں مجھے زیاد بن جبیر نے خبر دی ہے، وہ کہتے ہیں` میں منیٰ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا کہ ان کا گزر ایک شخص کے پاس سے ہوا جو اپنا اونٹ بٹھا کر نحر کر رہا تھا انہوں نے کہا: کھڑا کر کے (بایاں پیر) باندھ کر نحر کرو، یہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 2034

´علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوائے قرآن کے اور اس کے جو اس صحیفے ۱؎ میں ہے کچھ نہیں لکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ حرام ہے عائر سے ثور تک (عائر اور ثور ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 2002

´عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` لوگ ہر جانب سے (مکہ سے) لوٹتے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی مکہ سے کوچ نہ کرے یہاں تک کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف (طواف وداع) ہو ۱؎مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1869

´ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ` نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوتے تو اس کی بلندی کی طرف سے داخل ہوتے اور اس کے نشیب سے نکلتے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1837

´انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درد کی وجہ سے جو آپ کو تھا اپنے قدم کی پشت پر پچھنا لگوایا، آپ احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد کو کہتے سنا کہ ابن ابی عروبہ نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے یعنی قتادہ سے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 2042

´ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ۱؎ اور میری قبر کو میلا نہ بناؤ (کہ سب لوگ وہاں اکٹھا ہوں)، اور میرے اوپر درود بھیجا کرو کیونکہ تم جہاں بھی رہو گے تمہارا ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1909

´اس سند سے بھی جابر رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے` البتہ اس میں یعقوب نے «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» پڑھنے کے بعد یہ ادراج کیا ہے کہ آپ نے ان دونوں رکعتوں میں توحید (یعنی «قل هو الله أحد») اور «قل يا أيها ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1762

´ناجیہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ہدی بھیجا اور فرمایا: اگر ان میں سے کوئی مرنے لگے تو اس کو نحر کر لینا پھر اس کی جوتی اسی کے خون میں رنگ کر اسے لوگوں کے واسطے چھوڑ دینا۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1878

´صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ` فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مکہ میں اطمینان ہوا تو آپ نے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کی چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے، اور میں آپ کو دیکھ رہی تھی۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1801

´سبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب ہم عسفان میں پہنچے تو آپ سے سراقہ بن مالک مدلجی نے کہا: اللہ کے رسول! آج ایسا بیان فرمائیے جیسے ان لوگوں کو سمجھاتے ہیں جو ابھی پیدا ہوئے ہوں (بالکل واضح) تو آپ ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1870

´مہاجر مکی کہتے ہیں کہ` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جو بیت اللہ کو دیکھ کر ہاتھ اٹھاتا ہو تو انہوں نے کہا: میں سوائے یہود کے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھتا تھا، اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا، لیکن آپ ایسا نہیں کرتے تھے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1730

´عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` لوگ حج کو جاتے اور زاد راہ نہیں لے جاتے۔ ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اہل یمن یا اہل یمن میں سے کچھ لوگ حج کو جاتے اور زاد راہ نہیں لیتے اور کہتے: ہم متوکل (اللہ پر بھروسہ کرنے والے) ہیں تو اللہ نے آیت کریمہ «وتزودوا ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1962

´ابراہیم کہتے ہیں` عثمان رضی اللہ عنہ نے چار رکعتیں پڑھیں اس لیے کہ انہوں نے منیٰ کو وطن بنا لیا تھا۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1809

´عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے سوار تھے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ کے پاس فتویٰ پوچھنے آئی تو فضل اسے دیکھنے لگے اور وہ فضل کو دیکھنے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1863

´حجاج بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ` نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی ہڈی ٹوٹ جائے یا لنگڑا ہو جائے یا بیمار ہو جائے، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی، سلمہ بن شبیب نے «عن معمر» کے بجائے ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1814

´سائب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ ۱؎ اور ساتھ والوں کو «الإهلال» یا فرمایا «التلبية» میں آواز بلند ..مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1971

´جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر بیٹھ کر یوم النحر کو چاشت کے وقت رمی کرتے دیکھا پھر اس کے بعد جو رمی کی (یعنی گیارہ، بارہ اور تیرہ کو) تو وہ زوال کے بعد کی۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1984

´عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں پر حلق نہیں صرف «تقصير» (بال کٹانا) ہے۔مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1892

´عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں رکن (یعنی رکن یمانی اور حجر اسود) کے درمیان «ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار» (سورۃ البقرہ: ۹۶) کہتے سنا، مکمل حدیث پڑھیئے

حدیث نمبر 1822

´یعلیٰ بن امیہ سے روایت ہے کہ` ایک آدمی جعرانہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس نے عمرہ کا احرام اور جبہ پہنے ہوئے تھا، اور اس کی داڑھی و سر کے بال زرد تھے، اور راوی نے یہی حدیث بیان کی۔مکمل حدیث پڑھیئے