Hadith no 7020 Of Sahih Muslim Chapter Tauba Ka Bayan (Lecture on Repentance)
Read Sahih Muslim Hadith No 7020 - Hadith No 7020 is from Lecture On Repentance , Tauba Ka Bayan Chapter in the Sahih Muslim Hadees Book, which is written by Imam Muslim. Hadith # 7020 of Imam Muslim covers the topic of Lecture On Repentance briefly in Sahih Muslim. You can read Hadith No 7020 from Lecture On Repentance in Urdu, Arabic and English Text with pdf download.
صحیح مسلم - حدیث نمبر 7020
Hadith No | 7020 |
---|---|
Book Name | Sahih Muslim |
Book Writer | Imam Muslim |
Writer Death | 261 ھ |
Chapter Name | Lecture On Repentance |
Roman Name | Tauba Ka Bayan |
Arabic Name | التَّوْبَةِ |
Urdu Name | توبہ کا بیان |
Urdu Translation
سعید بن المسیب اور عروہ بن زبیر اور علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے، ان سب لوگوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث روایت کی جب ان پر تہمت کی تہمت کرنے والوں نے اور کہا: جو کہا، پھر اللہ تعالیٰ نے پاک کیا ان کو ان کی تہمت سے۔ زہری نے کہا: ان سب لوگوں نے ایک ایک ٹکڑا اس حدیث کا مجھ سے روایت کیا اور بعض ان میں سے زیادہ یاد رکھنے والے تھے اس حدیث کو بعض سے اور زیادہ حافظ تھے اور عمدہ بیان کرنے والے تھے اس کو اور میں نے یاد رکھی ہر ایک سے جو روایت سنی اور بعض کی حدیث بعض کی تصدیق کرتی ہے۔ ان لوگوں نے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو قرعہ ڈالتے اپنی عورتوں پر اور جس عورت کے نام پر قرعہ نکلتا، اس کو سفر میں ساتھ لے جاتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرعہ ڈالا ایک جہاد کے سفر میں اس میں میرا نام نکلا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئی اور یہ ذکر اس وقت کا ہے جب پردہ کا حکم اتر چکا تھا میں اپنے ہودج میں سوار ہوتی اور راہ میں جب اترتی تو بھی اسی ہودج میں رہتی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے فارغ ہوئے اور لوٹے اور مدینہ سے قریب ہو گئے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو کوچ کا حکم دیا، میں کھڑی ہوئی جب لوگوں نے کوچ کی خبر کر دی اور چلی، یہاں تک کہ لشکر کے آگے بڑھ گئی، جب میں اپنے کام سے فارغ ہوئی تو اپنے ہودج کی طرف آئی اور سینہ کو چھوا، معلوم ہوا کہ میرا ہار ظفار کے نگینوں کا گر گیا ہے (ظفار ایک گاؤں ہے یمن میں) میں لوٹی اور اس ہار کو ڈھونڈنے لگی۔ اس کے ڈھونڈننے میں مجھے دیر لگی اور وہ لوگ آ پہنچے جو میرا ہودج اٹھاتے تھے، انہوں نے وہ اٹھایا اور میرے اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوتی تھی وہ یہ سمجھے کہ میں اسی ہودج میں ہوں۔ اس وقت عورتیں ہلکی (دبلی) تھیں نہ سنڈھی تھیں نہ موٹی کیونکہ تھوڑا کھانا کھاتی تھیں، اس لیے ان کو ہودج کا بوجھ عادت کے خلاف معلوم نہ ہوا، جب انہوں نے اس کو اونٹ پر لادا اور اٹھایا، اور میں ایک کم سن لڑکی بھی تھی، آخر لوگوں نے اونٹ کو اٹھایا، اور چل دیئے اور میں نے اپنا ہار اس وقت پایا جب سارا لشکر چل دیا، میں جو ان کے ٹھکانے پر آئی تو وہاں نہ کسی کی آواز ہے، نہ کوئی آواز سننے والا ہے، میں نے یہ ارادہ کیا کہ جہاں بیٹھی تھی وہیں بیٹھ جاؤں اور میں یہ سمجھی کہ لوگ جب مجھے نہ پائیں گے، تو یہیں لوٹ کر آئیں گے، تو میں اسی ٹھکانے پر بیٹھی تھی، اتنے میں میری آنکھ لگ گئی اور میں سو رہی، اور صفوان بن معطل سلمی ذکوانی ایک شخص تھا، وہ آرام کے لیے آخر رات میں لشکر کے پیچھے ٹھہرا تھا، جب وہ روانہ ہوا تو صبح کو میرے ٹھکانے پر پہنچا، اس کو ایک آدمی کا جثہ معلوم ہوا، جو سو رہا ہے، وہ میرے پاس آیا اور مجھ کو پہچان لیا دیکھتے ہی، اس لیے کہ میں پردہ کا حکم اترنے سے پہلے اس کے سامنے ہوا کرتی۔ میں جاگ اٹھی، اس کی آواز سن کر جب اس نے «إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ» پڑھا مجھ کو پہچان کر۔ میں نے اپنا منہ ڈھانپ لیا اپنی اوڑھنی سے۔ اللہ کی قسم! اس نے کوئی بات مجھ سے نہیں کی، نہ میں نے اس کی کوئی بات سنی سوائے «إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ» کہنے کے۔ پھر اس نے اپنا اونٹ بٹھایا اور اپنا ہاتھ میرے چڑھنے کے لیے بچھا دیا۔ میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ پیدل چلا اونٹ کو کھینچتا ہوا، یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچے اور لشکر کے لوگ اتر چکے تھے سخت دوپہر کی گرمی میں، تو میرے مقدمے میں تباہ ہوئے، جو لوگ تباہ ہوئے (یعنی جنھوں نے بدگمانی کی) اور قرآن میں جس کی نسبت «تَوَلَّى كِبْرَهُ» آیا ہے یعنی بانی مبانی اس تہمت کا وہ عبداللہ بن ابی بن سلول (منافق) تھا۔ آخر ہم مدینہ میں آئے اور میں جب مدینہ میں پہنچی تو بیمار ہو گئی ایک مہینہ تک بیمار رہی اور لوگوں کا یہ حال تھا کہ بہتان کرنے والوں کی باتوں میں غور کرتے اور مجھے ان کی کسی بات کی خبر نہ تھی۔ صرف مجھ کو اس امر سے شک ہوا کہ میں نے اپنی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ شفقت نہ دیکھی تھی، جو پہلے میرے حال پر ہوتی۔ جب میں بیمار ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اندر آتے اور سلام کرتے پھر فرماتے: ”یہ عورت کیسی ہے .“ سو اس امر سے مجھے شک ہوتا لیکن مجھے اس خرابی کی خبر نہ تھی، یہاں تک کہ جب میں دبلی ہو گئی بیماری جانے کے بعد تو میں نکلی اور میرے ساتھ مسطح کی ماں بھی نکلی مناصع کی طرف (مناصع جگہ تھی مدینہ کے باہر) اور وہ پائخانے کی جگہ تھی ہم لوگوں کے (پائخانے بننے سے پہلے) ہم لوگ رات ہی کو نکلا کرتے اور رات ہی کو چلے آتے اور یہ ذکر اس وقت کا ہے جب ہمارے گھروں کے نزدیک پائخانے نہیں بنے تھے اور ہم پہلے عربوں کی طرح جنگل میں جایا کرتے (پائخانے کے لیے) اور گھر کے پاس پائخانے بنانے سے نفرت رکھتے، تو میں چلی اور ام مسطح میرے ساتھ تھی وہ بیٹی تھی ابورہم بن مطلب بن عبد مناف کی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی تھی جو خالہ تھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی (اس کا نام سلمیٰ تھا) اس کے بیٹے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب تھا، غرض میں اور ام مسطح دونوں جب اپنے کام سے فارغ ہو چکیں تو واپس اپنے گھر کی طرف آ رہی تھیں، اتنے میں ام مسطح کا پاؤں الجھا اپنی چادر میں اور بولی: ہلاک ہوا مسطح۔ میں نے کہا: تو نے بری بات کہی۔ تو برا کہتی ہے اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک تھا۔ وہ بولی: اے نادان! تو نے کچھ نہیں سنا۔ مسطح نے کیا کہا؟ میں نے کہا: کیا کہا: اس نے مجھ سے بیان کیا جو بہتان لگانے والوں نے کہا تھا۔ یہ سن کر میری بیماری دو چند ہو گئی، ایک اور بیماری بڑھی۔ میں جب اپنے گھر پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور سلام کیا اور فرمایا: ”اب اس عورت کا کیا حال ہے؟“ میں نے کہا: آپ مجھ کو اجازت دیتے ہیں اپنے ماں باپ کے پاس جانے کی۔ اور میرا اس وقت یہ ارادہ تھا کہ میں ماں باپ کے پاس جا کر اس خبر کی تحقیق کروں۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اجازت دی اور میں اپنے ماں باپ کے پاس آئی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا: اماں! یہ لوگ کیا بک رہے ہیں۔ وہ بولی: بیٹا! تو اس کا خیال نہ کر اور اس کو بڑی بات مت سمجھ اللہ کی قسم ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی مرد کے پاس ایک خوبصورت عورت ہو جو اس کو چاہتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور سوکنیں اس کے عیب نہ نکالیں۔ میں نے کہا: سبحان اللہ! لوگوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا۔ میں ساری رات روتی رہی۔ صبح تک میرے آنسو نہ ٹھہرے، اور نہ نیند آئی صبح کو بھی میں رو رہی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کو بلایا کیونکہ وحی نہیں اتری تھی اور ان دونوں سے مشورہ لیا مجھ کو جدا کرنے کے لیے (یعنی طلاق دینے کے لیے) سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے تو وہی رائے دی جو وہ جانتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ کے حال کو اور اس کی عصمت کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اس کے ساتھ۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! عائشہ آپ کی زوجہ ہیں اور ہم تو سوا بہتری کے اور کوئی بات اس کی نہیں جانتے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ پر تنگی نہیں کی اور عائشہ کے سوا عورتیں بہت ہیں اور اگر آپ لونڈی سے پوچھیے تو وہ آپ سے سچ کہہ دے گی (لونڈی سے مراد بریرہ ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہتی تھی) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلایا اور فرمایا: ”اے بریرہ! تو نے کبھی عائشہ سے ایسی بات دیکھی ہے جس سے تجھ کو اس کی پاکدامنی میں شک پڑے؟“ بریرہ نے کہا: قسم اس کی جس نے آپ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے اگر میں ان کا کوئی کام دیکھتی کبھی تو میں عیب بیان کرتی۔ اس سے زیادہ کوئی عیب نہیں ہے کہ عائشہ کم عمر لڑکی ہے، آٹا چھوڑ کر گھر کا سو جاتی ہے، پھر بکری آتی ہے اور اس کو کھا لیتی ہے۔ (مطلب یہ ہے کہ ان میں کوئی عیب نہیں جس کو آپ پوچھتے ہیں نہ اس کے سوا کوئی عیب ہے جو عیب ہے وہ یہی ہے کہ بھولی بھالی لڑ کی اور کم عمری کی وجہ سے گھر کا بندوبست نہیں کر سکتی) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی سلول سے بدلا چاہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منبر پر: ”اے مسلمان لوگو! کون بدلہ لے گا میرا اس شخص سے جس کی سخت بات ایذاء دینے والی میرے گھر والوں کی نسبت مجھ تک پہنچی۔ اللہ کی قسم! میں تو اپنی گھر والی (یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو) نیک سمجھتا ہوں اور جس شخص سے یہ لوگ تہمت لگاتے ہیں (یعنی صفوان بن معطل سے) اس کو بھی نیک سمجھتا ہوں اور وہ کبھی میرے گھر میں نہیں گیا مگر میرے ساتھ۔“ یہ سن کر سیدنا سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ (جو قبیلہ اوس کے سردار تھے) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! میں آپ کا بدلہ لیتا ہوں۔ اگر تہمت کرنے والا ہماری قوم اوس میں سے ہے تو ہم اس کی گردن مارتے ہیں اور جو ہمارے بھائیوں خزرج میں سے ہے تو آپ حکم کیجئیے ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے (یعنی اس کی گردن ماریں گے) یہ سن کر سیدنا سعد بن عبادہ کھڑے ہوئے اور وہ خزرج قبیلہ کے سردار تھے اور نیک آدمی تھے لیکن اس وقت ان کو اپنی قوم کی حمایت آ گئی اور کہنے لگے: اے سعد بن معاذ! قسم اللہ کی بقا کی، تو ہماری قوم کے شخص کو قتل نہ کرے گا، نہ کر سکے گا۔ یہ سن کر اسید بن حضیر جو سعد بن معاذ کے چچا زاد بھائی تھے کھڑے ہوئے اور سعد بن عبادہ سے کہنے لگے: تو نے غلط کہا: قسم اللہ کی بقا کی! ہم اس کو قتل کریں گے اور تو منافق ہے جب تو منافقوں کی طرف سے لڑتا ہے۔ غرض کہ دونوں قبیلے اوس اور خزرج کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ کشت و خون شروع ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے تھے ان کو سمجھا رہے تھے اور ان کا غصہ فرو کر رہے تھے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو رہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اس دن بھی سارا دن روتی رہی کہ میرے آنسو نہ تھمتے تھے اور نہ نیند آتی تھی، پھر دوسری رات بھی روتی رہی کہ نہ انسو تھمتے تھے، نہ نیند آتی تھی اور میرے باپ نے یہ گمان کیا کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ میرے ماں باپ میرے پاس بیتھے تھے اور میں رو رہی تھی، اتنے میں انصار کی ایک عورت نے اجازت مانگی۔ میں نے اس کو اجازت دی وہ بھی آ کر رونے لگی، پھر ہم اسی حالت میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سلام کیا اور بیٹھے۔ اور جس روز سے مجھ پر تہمت ہوئی تھی اس روز سے آج تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس نہیں بیٹھے تھے اور ایک مہینہ یونہی گزرا تھا میرے مقدمہ میں کوئی وحی نہیں اتری۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد پڑھا بیٹھتے ہی اور فرمایا: ”اما بعد۔ اے عائشہ! مجھ کو تمہاری طرف سے ایسی ایسی خبر پہنچی ہے، پھر اگر تم پاکدامن ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری پاکدامنی بیان کر دے گا اور اگر تو نے گناہ کیا ہے تو توبہ کر اور بخشش مانگ اللہ سے اس واسطے کہ بندہ جب گناہ کا اقرار کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے اللہ اس کو بخش دیتا ہے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات تمام کر چکے تو میرے آنسو بالکل بند ہو گئے یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی نہ رہا۔ میں نے اپنے باپ سے کہا: آپ جواب دیں میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقدمہ میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میرے باپ بولے: اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کیا میں جواب دوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (سبحان اللہ باپ تو محب رسول تھے گو ان کی بیٹی کا مقدمہ تھا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دم نہ مارا باوجودت زمن آواز نیا مدکہ منم)۔ میں نے اپنی ماں سے کہا: تم جواب دو میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ وہ بولی: اللہ کی قسم میں نہیں جانتی کیا جواب دوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ آخر میں نے خود ہی کہا اور میں کم سن لڑکی تھی میں نے قرآن نہیں پڑھا ہے لیکن میں قسم اللہ کی یہ جانتی ہوں کہ تم لوگوں نے اس بات کو یہاں تک سنا کہ تمہارے دل میں جم گئی اور تم نے اس کو سچ سمجھ لیا (یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے غصے سے فرمایا، ورنہ سچ کسی نے نہیں سمجھا، بجز تہمت کرنے والوں کے) پھر اگر تم سے کہوں میں بے گناہ ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں تو بھی تم مجھ کو سچا نہیں سمجھبنے کے، اور اگر میں ایک گناہ کا اقرار کر لوں جس کو میں نے نہیں کیا ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو تم مجھ کو سچا سمجھو گے اور میں اپنی اور تمہاری مثل سوائے اس کے کوئی نہیں پاتی جو یوسف علیہ السلام کے باپ کی تھی (یعقوب علیہ السلام کی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو رنج میں ان کا نام یاد نہ آیا یوسف علیہ السلام کا باپ کہا) جب انہوں نے کہا: «فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ» یعنی اب صبر بہتر ہے اور تمہاری اس گفتگو پر اللہ ہی کی مدد درکار ہے، پھر میں نے کروٹ موڑ لی اور میں اپنے بچھونے پر لیٹ رہی اور میں اللہ کی قسم اس وقت جانتی تھی کہ میں پاک ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور میری پاکی ظاہر کرے گا لیکن اللہ کی قسم مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میری شان میں قرآن اترے گا جو پڑھا جائے گا (قیامت تک) کیونکہ میری شان خود میرے گمان میں اس لائق نہ تھی کہ اللہ جل جلالہ عزت اور بزرگی والا میرے مقدمہ میں کلام کرے اور کلام بھی ایسا جو پڑھا جائے البتہ مجھ کو یہ امید تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں کوئی ایسا مضمون ایسا دیکھیں گے جس سے اللہ تعالیٰ میری پاکی ظاہر کر دے گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تو اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں اٹھے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی بھیجی اور اتارا قرآن کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی سختی معلوم ہونے لگی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر سے موتی کی طرح پسنیے کے قطرے ٹپکنے لگے، جاڑوں کے دنوں میں اس کلام کی سختی سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا (اس لیے کہ بڑے شہنشاہ کا کلام تھا) جب یہ حالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاتی رہی (یعنی وحی ختم ہو چکی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے اور اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمہ منہ سے نکالا۔ فرمایا: ”اے عائشہ! خوش ہو جا اللہ تعالیٰ نے تجھ کو بے گناہ اور پاک فرمایا۔“ میری ماں نے کہا: اٹھ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کر اور شکر کر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کا بوسہ لے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں اٹھوں گی اور نہ کسی کی تعریف کروں گی سوائے اللہ تعالیٰ کے اسی نے میری پاکی اتاری۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ تعالیٰ نے «إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ» (۲۴-النور: ۱۱) آخر تک دس آیتوں کو تو اللہ جل جلالہ نے ان آیتوں کو میری پاکی کے لیے اتارا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو مسطح سے عزیز داری کی وجہ سے سلوک کیا کرتے تھے یہ کہا: کہ اللہ کی قسم! اب میں اس کو کچھ نہ دوں گا کیونکہ اس نے عائشہ کی نسبت ایسا کہا تو اللہ نے یہ آیت اتاری «وَلاَ يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِى الْقُرْبَى» سے «أَلاَ تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ» آخر تک۔ حبان بن موسٰی نے کہا: عبداللہ بن مبارک نے کہا: یہ آیت بڑی امید کی ہے اللہ کی کتاب میں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے ناتے داروں کے ساتھ سلوک کرنے میں بخشش کا وعدہ کیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ مجھ کو بخشے، پھر مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے وہ جاری کر دیا اور کہا: میں کبھی بند نہ کروں گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اور رسول اللہ نے ام المؤمنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا سے میرے باب میں پوچھا: جو وہ جانتی ہوں یا انہوں نے دیکھا ہو۔ انہوں نے کہا: (حالانکہ وہ سوکن تھیں) یا رسول اللہ! میں اپنے کان اور آنکھ کی احتیاط رکھتی ہوں (یعنی بن سنے کوئی بات سنی ہے نہیں کہتی اور نہ بن دیکھے کو دیکھی کہتی ہوں) میں تو عائشہ کو نیک ہی سمجھتی ہوں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: زینب رضی اللہ عنہا ہی ایک زوجہ تھیں جو میرے مقابل کی تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس تہمت سے بچایا ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے اور ان کی بہن حمنہ بنت حجش نے ان کے لیے تعصب کیا اور ان کے لیے لڑیں تو جو لوگ تباہ ہوئے ان میں وہ بھی تھیں (یعنی تہمت میں شریک تھیں) زہری نے کہا: تو ان لوگوں کا یہ آخر حال ہے جو ہم کو پہنچا۔
Hadith in Arabic
حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ الْأَيْلِيُّ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ : حَدَّثَنَا ، وقَالَ الْآخَرَانِ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، وَالسِّيَاقُ حَدِيثُ مَعْمَرٍ مِنْ رِوَايَةِ عَبْدٍ وَابْنِ رَافِعٍ ، قَالَ يُونُسُ وَمَعْمَرٌ جميعا عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، حِينَ قَالَ لَهَا : " أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا فَبَرَّأَهَا اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ، وَكُلُّهُمْ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنْ حَدِيثِهَا وَبَعْضُهُمْ كَانَ أَوْعَى لِحَدِيثِهَا مِنْ بَعْضٍ ، وَأَثْبَتَ اقْتِصَاصًا وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمُ الْحَدِيثَ الَّذِي حَدَّثَنِي ، وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا ذَكَرُوا ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ ، فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ ، قَالَتْ عَائِشَةُ : فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا ، فَخَرَجَ فِيهَا سَهْمِي ، فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ ، فَأَنَا أُحْمَلُ فِي هَوْدَجِي وَأُنْزَلُ فِيهِ مَسِيرَنَا ، حَتَّى إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوِهِ وَقَفَلَ وَدَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ ، فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ ، فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ ، فَلَمَّا قَضَيْتُ مِنْ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَى الرَّحْلِ ، فَلَمَسْتُ صَدْرِي فَإِذَا عِقْدِي مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ قَدِ انْقَطَعَ ، فَرَجَعْتُ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي ، فَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ وَأَقْبَلَ الرَّهْطُ الَّذِينَ كَانُوا يَرْحَلُونَ لِي فَحَمَلُوا هَوْدَجِي ، فَرَحَلُوهُ عَلَى بَعِيرِيَ الَّذِي كُنْتُ أَرْكَبُ وَهُمْ يَحْسِبُونَ أَنِّي فِيهِ ، قَالَتْ : وَكَانَتِ النِّسَاءُ إِذْ ذَاكَ خِفَافًا لَمْ يُهَبَّلْنَ وَلَمْ يَغْشَهُنَّ اللَّحْمُ إِنَّمَا يَأْكُلْنَ الْعُلْقَةَ مِنَ الطَّعَامِ ، فَلَمْ يَسْتَنْكِرِ الْقَوْمُ ثِقَلَ الْهَوْدَجِ حِينَ رَحَلُوهُ وَرَفَعُوهُ ، وَكُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ ، فَبَعَثُوا الْجَمَلَ وَسَارُوا وَوَجَدْتُ عِقْدِي بَعْدَ مَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ ، فَجِئْتُ مَنَازِلَهُمْ وَلَيْسَ بِهَا دَاعٍ وَلَا مُجِيبٌ ، فَتَيَمَّمْتُ مَنْزِلِي الَّذِي كُنْتُ فِيهِ وَظَنَنْتُ أَنَّ الْقَوْمَ سَيَفْقِدُونِي فَيَرْجِعُونَ إِلَيَّ ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ فِي مَنْزِلِي غَلَبَتْنِي عَيْنِي ، فَنِمْتُ وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ ثُمَّ الذَّكْوَانِيُّ قَدْ عَرَّسَ مِنْ وَرَاءِ الْجَيْشِ ، فَادَّلَجَ فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ ، فَأَتَانِي فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي ، وَقَدْ كَانَ يَرَانِي قَبْلَ أَنْ يُضْرَبَ الْحِجَابُ عَلَيَّ ، فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي ، فَخَمَّرْتُ وَجْهِي بِجِلْبَابِي َ وَاللَّهِ مَا يُكَلِّمُنِي كَلِمَةً وَلَا سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً غَيْرَ اسْتِرْجَاعِهِ حَتَّى أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ ، فَوَطِئَ عَلَى يَدِهَا ، فَرَكِبْتُهَا فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِيَ الرَّاحِلَةَ حَتَّى أَتَيْنَا الْجَيْشَ بَعْدَ مَا نَزَلُوا مُوغِرِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ ، فَهَلَكَ مَنْ هَلَكَ فِي شَأْنِي وَكَانَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَاشْتَكَيْتُ حِينَ قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ شَهْرًا وَالنَّاسُ يُفِيضُونَ فِي قَوْلِ أَهْلِ الْإِفْكِ وَلَا أَشْعُرُ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ ، وَهُوَ يَرِيبُنِي فِي وَجَعِي أَنِّي لَا أَعْرِفُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللُّطْفَ الَّذِي كُنْتُ أَرَى مِنْهُ حِينَ أَشْتَكِي ، إِنَّمَا يَدْخُلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُسَلِّمُ ، ثُمَّ يَقُولُ : كَيْفَ تِيكُمْ ، فَذَاكَ يَرِيبُنِي وَلَا أَشْعُرُ بِالشَّرِّ حَتَّى خَرَجْتُ بَعْدَ مَا نَقَهْتُ وَخَرَجَتْ مَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ وَهُوَ مُتَبَرَّزُنَا وَلَا نَخْرُجُ إِلَّا لَيْلًا إِلَى لَيْلٍ ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الْأُوَلِ فِي التَّنَزُّهِ ، وَكُنَّا نَتَأَذَّى بِالْكُنُفِ أَنْ نَتَّخِذَهَا عِنْدَ بُيُوتِنَا ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ وَهِيَ بِنْتُ أَبِي رُهْمِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ وَأُمُّهَا ابْنَةُ صَخْرِ بْنِ عَامِرٍ خَالَةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ ، وَابْنُهَا مِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ بْنِ عَبَّادِ بْنِ الْمُطَّلِبِ ، فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَبِنْتُ أَبِي رُهْمٍ قِبَلَ بَيْتِي حِينَ ، فَرَغْنَا مِنْ شَأْنِنَا فَعَثَرَتْ أُمُّ مِسْطَحٍ فِي مِرْطِهَا ، فَقَالَتْ : تَعِسَ مِسْطَحٌ ، فَقُلْتُ لَهَا : بِئْسَ مَا قُلْتِ أَتَسُبِّينَ رَجُلًا قَدْ شَهِدَ بَدْرًا ، قَالَتْ : أَيْ هَنْتَاهْ أَوْ لَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ ؟ ، قُلْتُ : وَمَاذَا قَالَ ؟ ، قَالَتْ : فَأَخْبَرَتْنِي بِقَوْلِ أَهْلِ الْإِفْكِ فَازْدَدْتُ مَرَضًا إِلَى مَرَضِي ، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَالَ : كَيْفَ تِيكُمْ ، قُلْتُ : أَتَأْذَنُ لِي أَنْ آتِيَ أَبَوَيَّ ، قَالَتْ : وَأَنَا حِينَئِذٍ أُرِيدُ أَنْ أَتَيَقَّنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا ، فَأَذِنَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ أَبَوَيَّ ، فَقُلْتُ لِأُمِّي يَا أُمَّتَاهْ : مَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ ؟ ، فَقَالَتْ يَا بُنَيَّةُ : هَوِّنِي عَلَيْكِ فَوَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةٌ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا وَلَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا كَثَّرْنَ عَلَيْهَا ، قَالَتْ : قُلْتُ : سُبْحَانَ اللَّهِ وَقَدْ تَحَدَّثَ النَّاسُ بِهَذَا ، قَالَتْ : فَبَكَيْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَصْبَحْتُ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ ثُمَّ أَصْبَحْتُ أَبْكِي ، وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْتَشِيرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ ، قَالَتْ : فَأَمَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، فَأَشَارَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ وَبِالَّذِي يَعْلَمُ فِي نَفْسِهِ لَهُمْ مِنَ الْوُدِّ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هُمْ أَهْلُكَ وَلَا نَعْلَمُ إِلَّا خَيْرًا ، وَأَمَّا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ، فَقَالَ : لَمْ يُضَيِّقْ اللَّهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ ، وَإِنْ تَسْأَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ ، قَالَتْ : فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِيرَةَ ، فَقَالَ أَيْ بَرِيرَةُ : هَلْ رَأَيْتِ مِنْ شَيْءٍ يَرِيبُكِ مِنْ عَائِشَةَ ؟ ، قَالَتْ لَهُ بَرِيرَةُ : وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا قَطُّ أَغْمِصُهُ عَلَيْهَا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا ، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ ، فَتَأْكُلُهُ ، قَالَتْ : فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَاسْتَعْذَرَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ ابْنِ سَلُولَ ، قَالَتْ : فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ : يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَ أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي ، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا ، وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا ، وَمَا كَانَ يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا مَعِي ، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ الْأَنْصَارِيُّ ، فَقَالَ : أَنَا أَعْذِرُكَ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنْ كَانَ مِنْ الْأَوْسِ ضَرَبْنَا عُنُقَهُ ، وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا ، فَفَعَلْنَا أَمْرَكَ ، قَالَتْ : فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهُوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا ، وَلَكِنْ اجْتَهَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ ، فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ : كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَا تَقْتُلُهُ وَلَا تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ ، فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ ، فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ : كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ ، فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ ، فَثَارَ الْحَيَّانِ الْأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَقْتَتِلُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَتُوا وَسَكَتَ ، قَالَتْ : وَبَكَيْتُ يَوْمِي ذَلِكَ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ ، ثُمَّ بَكَيْتُ لَيْلَتِي الْمُقْبِلَةَ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ وَأَبَوَايَ يَظُنَّانِ أَنَّ الْبُكَاءَ ، فَالِقٌ كَبِدِي فَبَيْنَمَا هُمَا جَالِسَانِ عِنْدِي وَأَنَا أَبْكِي اسْتَأْذَنَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ ، فَأَذِنْتُ لَهَا فَجَلَسَتْ تَبْكِي ، قَالَتْ : فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ ، قَالَتْ : وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مُنْذُ قِيلَ لِي مَا قِيلَ ، وَقَدْ لَبِثَ شَهْرًا لَا يُوحَى إِلَيْهِ فِي شَأْنِي بِشَيْءٍ ، قَالَتْ : فَتَشَهَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَلَسَ ، ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ : فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا ، فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ ، وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبٍ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ ، قَالَتْ : فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً ، فَقُلْتُ لِأَبِي : أَجِبْ عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا ، قَالَ ، فَقَالَ : وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ لِأُمِّي : أَجِيبِي عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ : لَا أَقْرَأُ كَثِيرًا مِنَ الْقُرْآنِ إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّكُمْ قَدْ سَمِعْتُمْ بِهَذَا حَتَّى اسْتَقَرَّ فِي نُفُوسِكُمْ وَصَدَّقْتُمْ بِهِ ، فَإِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لَا تُصَدِّقُونِي بِذَلِكَ ، وَلَئِنْ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُونَنِي ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا إِلَّا كَمَا ، قَالَ أَبُو يُوسُفَ : فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18 ، قَالَتْ : ثُمَّ تَحَوَّلْتُ فَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِي ، قَالَتْ : وَأَنَا وَاللَّهِ حِينَئِذٍ أَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ ، وَأَنَّ اللَّهَ مُبَرِّئِي بِبَرَاءَتِي ، وَلَكِنْ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنْ يُنْزَلَ فِي شَأْنِي وَحْيٌ يُتْلَى ، وَلَشَأْنِي كَانَ أَحْقَرَ فِي نَفْسِي مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى ، وَلَكِنِّي كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ بِهَا ، قَالَتْ : فَوَاللَّهِ مَا رَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَجْلِسَهُ وَلَا خَرَجَ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ أَحَدٌ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ عِنْدَ الْوَحْيِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ فِي الْيَوْمِ الشَّاتِ مِنْ ثِقَلِ ، الْقَوْلِ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْهِ ، قَالَتْ : فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَضْحَكُ ، فَكَانَ أَوَّلَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا أَنْ ، قَالَ : أَبْشِرِي يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللَّهُ ، فَقَدْ بَرَّأَكِ ، فَقَالَتْ لِي أُمِّي : قُومِي إِلَيْهِ ، فَقُلْتُ : وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُ إِلَّا اللَّهَ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي ، قَالَتْ : فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ سورة النور آية 11 عَشْرَ آيَاتٍ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ بَرَاءَتِي ، قَالَتْ : فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ وَفَقْرِهِ : وَاللَّهِ لَا أُنْفِقُ عَلَيْهِ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِي ، قَالَ لِعَائِشَةَ : فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى إِلَى قَوْلِهِ أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ سورة النور آية 22 ، قَالَ حِبَّانُ بْنُ مُوسَى : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ : هَذِهِ أَرْجَى آيَةٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي ، فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ النَّفَقَةَ الَّتِي كَانَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ ، وَقَالَ : لَا أَنْزِعُهَا مِنْهُ أَبَدًا ، قَالَتْ عَائِشَةُ : وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرِي مَا عَلِمْتِ أَوْ مَا رَأَيْتِ ؟ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَحْمِي سَمْعِي وَبَصَرِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَيْرًا ، قَالَتْ عَائِشَةُ : وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ وَطَفِقَتْ أُخْتُهَا حَمْنَةُ بِنْتُ جَحْشٍ تُحَارِبُ لَهَا ، فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ " ، قَالَ الزُّهْرِيُّ : فَهَذَا مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ أَمْرِ هَؤُلَاءِ الرَّهْطِ ، وقَالَ فِي حَدِيثِ يُونُسَ : احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ ،
- Previous Hadith
- Hadith No. 7020 of 7563
- Next Hadith
Your Comments/Thoughts ?
توبہ کا بیان سے مزید احادیث
حدیث نمبر 6957
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 7010
قتادہ نے اسی سند کے ساتھ معاذ کی حدیث کی طرح بیان کیا ہے اور اس میں اتنا زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہ کی زمین کی طرف حکم بھیجا کہ دور ہو جا اور عبادت کی زمین کو حکم ہوا کہ تو قریب ہو جا۔ باب: مسلمانوں کا فدیہ کافر ہوں گےمکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6978
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی آئے، ایک عورت ان میں سے کسی کو ڈھونڈھتی تھی، جب اس نے ایک بچے کو پایا ان قیدیوں میں سے تو اس کو اٹھایا اور پیٹ سے لگایا اور دودھ پلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم فرمایا: ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6961
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”البتہ اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے اپنے بندہ کی توبہ سے بہ نسبت اس شخص کے تم میں سے جو جاگتے ہی اپنا اونٹ دیکھے جو گم ہو گیا ہو ایک خشک جنگل میں۔“مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6996
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شے اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند نہیں۔“ (بخاری کی روایت میں شخص ہے۔ اس ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 7007
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے اور ہم لوگ بھی بیٹھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! مجھ سے حد کا کام ہوا ہے تو حد لگائیے مجھ کو۔ رسول اللہ ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 7002
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ اس شخص نے اس عورت کا بوسہ لیا تھا یا ہاتھ سے مساس کیا تھا یا کچھ اور کیا تھا اور اس نے اس کا کفارہ پوچھا، تب یہ آیت اتری۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6999
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن غیرت کرتا ہے مومن کے لیے اور اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ غیرت ہے۔“مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6970
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری رحمت میرے غصہ سے آگے بڑھ گئی ہے۔“ (یعنی رحمت زیادہ ہے)۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6980
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، وہ جو مرنے لگا تو اپنے لوگوں سے بولا: مجھے جلا کر راکھ کر دینا، پھر آدھی راکھ جنگل میں اڑا دینا اور آدھی سمندر میں، کیونکہ اللہ کی ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6973
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کیں تو ایک ان میں سے اپنی مخلوقات کو دی اور ایک کم سو اپنے پاس چھپا رکھیں۔“مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6985
قتادہ سے دوسری رویت ایسی ہی ہے اس میں بجائے «راشه الله» کے «رغسه الله» یعنی دیا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے اور «لم ابتھر» کے بدلے لم «يبتئر» ہے یعنی کوئی نیکہ نہیں جمع کی اور «ما ابتار» اور مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6994
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا اس میں اتنا زیادہ ہے اللہ سے زیادہ کسی کو عذر کرنا پسند نہیں ہے (یعنی اللہ کو یہ بہت پسند ہے کہ گناہ گار بندے اس کے سامنے عذر پیش کریں اپنے گناہ کی معافی چاہیں) اسی واسطے اس نے کتاب اتاری اور پیغمبروں کو بھیجا اور توبہ کی تعلیم کی۔مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6969
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو بنایا تو اپنی کتاب میں لکھا اور وہ کتاب اس کے پاس ہے عرش کے اوپر کہ میری رحمت غضب پر غالب ہو گی۔“مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6974
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں ان میں سے ایک رحمت اتاری جنوں، آدمیوں، جانوروں اور کیڑوں میں۔ اسی ایک رحمت کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور رحم کرتے ہیں اور ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6971
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ مخلوقات کو بنا چکا تو اپنی کتاب میں لکھا اپنے اوپر، وہ کتاب اس کے پاس رکھی ہے کہ میری رحمت غالب ہو گی میرے غصہ پر۔“مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 6966
سیدنا حنظلہ اسیدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ محرروں میں سے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، انہوں نے کہا: سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور پوچھا: کیسا ہے تو اے حنظلہ! میں نے کہا: حنظلہ تو منافق ہو گیا (یعنی بے ایمان)۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 7000
علاء سے اس سند کے ساتھ مروی ہے۔ باب: نیکیوں سے برائیاں مٹنے کا بیانمکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 7004
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے ایک عورت سے مزہ اٹھایا مدینہ کے کنارے اور میں نے سب باتیں کیں سوائے جماع کے۔ اب میں حاضر ہوں جو چاہیے میرے باب میں حکم دیجئے۔ سیدنا عمر ..مکمل حدیث پڑھیئے
حدیث نمبر 7022
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب لوگوں نے میری نسبت بیان کیا جو بیان کیا اور مجھے خبر نہ ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے اور تشہد پڑھا اللہ کی تعریف کی اور اس کی صفت بیان کی جیسی اس کے لائق ہے پھر کہا: ”امابعد! مشورہ دو مجھ ..مکمل حدیث پڑھیئے